مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 655

مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

راوی:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ لَمَّا دَخَلَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلمالْبَےْتَ دَعَا فِیْ نَوَاحِےْہِ کُلِّھَا وَلَمْ ےُصَلِّ حَتّٰی خَرَجَ مِنْہُ فَلَمَّا خَرَجَ رَکَعَ رَکْعَتَےْنِ فِیْ قُبُلِ الْکَعْبَۃِ وَقَالَ ھٰذِہِ الْقِبْلَۃُ (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَ رَوَاہُ مُسْلِمٌ عَنْہُ وَ عَنْ اُسَامَۃَ اَبْنِ زَیْدِ)

" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے چاروں کونوں میں جا کر دعا کی اور بغیر نماز پڑھے باہر نکل آئے اور پھر باہر آکر کعبہ کے سامنے آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔ (صحیح البخاری )
صحیح مسلم نے اس روایت کو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اور انہوں نے اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔"

تشریح
کعبہ کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمانا کہ " یہی قبلہ ہے" اس بات کا اعلان کرنا تھا کہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دائمی طور پر ہوگیا ہے اور یہ قبلہ معین و مقرر ہوچکا ہے جو اب کسی حالت میں منسوخ نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ قبلہ اسی اگلی سمت ہے دوسری سمتوں سے اس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اور نہ اس کا مطلب یہ تھا کہ صرف باہر کی سمت سے قبلہ کی طرف متوجہ ہونا معتبر ہے اندر کے حصہ میں نماز درست نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ قبلہ کے اندر فرض نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ کعبہ کے اندر نفل پڑھنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک جائز ہے کیونکہ آگے آنے والی حضرت عبداللہ بن عمر فاروق کی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اس کے جواز کی واضح دلیل ہے۔
البتہ فرض پڑھنے کے سلسلہ میں علماء کے یہاں اختلاف ہے چنانچہ اکثر علماء کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو بھی جائز قرار دیتے ہیں مگر حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کعبہ کے اندر فرض نماز کی ادائیگی سے منع کرتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں