اذان کا بعض احکام کا بیان
راوی:
عَنِ اَبنِْ عُمَرَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ بِلَالًا ےُّنَادِیْ بِلَےْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی ےُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ قَالَ وَکَانَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ رَجُلًا اَعْمٰی لَا ےُنَادِیْ حَتّٰی ےُقَالَ لَہُ اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال (فجر کی اذان خاص) رات کو دے دیتے ہیں لہٰذا جب تک ابن ام مکتوم اذان دیں تم (رمضان میں سحری ) کھاتے پیتے رہا کرو۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک نابینا آدمی تھے، جب تک ان سے کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ تم نے صبح کردی، تم نے صبح کردی، وہ اذان نہ دیتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے، ایک مؤذن تو فجر کے وقت سے پہلے رات کو اذان دیتا تھا اور دوسرا نماز فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد اذان دیتا تھا۔ چنانچہ حضرات شوافع کے یہاں دو مؤذن مقرر کرنا سنت ہے ایک فجر سے پہلے اخیر آدھی رات کو اذان دینے کے لئے اور دوسرا فجر کے اول وقت پر اذان دینے کے لیے۔
حضرات حنفیہ فرماتے ہیں کہ پہلا مؤذن سحر کے لئے یا تہجد کے لئے تھا، اس کا تعلق نماز فجر کی اذان سے نہیں تھا کیونکہ ایک روایت میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی اذان وقت سے پہلے دینے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ اسی لئے حنفیہ کے ہاں فجر کی نماز کے لئے وقت سے پہلے رات کو اذان دینا جائز نہیں ہے۔
حدیث کے آخری جملے اصبحت اصبحت (یعنی تم نے صبح کر دی، تم نے صبح کر دی) سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح ہو جانے کے بعد اذان دیتے تھے تو اس وقت تک سحری کھانا پینا کیسے جائز ہو ا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اصبحت کے معنی یہ ہیں کہ " صبح ہونے والی ہے" اسی کو بطور مبالغہ اصبحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔