اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرٍ وَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنَّ الْمُؤَذِنِیْنَ یَفْضُلُوْنَنَا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْ کَمَا یَقُوْلُوْنَ فَاِذَا انْتَھَیْتَ فَسَلْ تُعْطَ۔ (رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک صحابی نے عرض کیا، یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! اذان دینے والے تو بزرگی میں ہم سے بڑھے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح وہ فرماتے ہیں (ساتھ ساتھ) تم بھی اسی طرح کہتے جاؤ اور جب (اذان کے جواب سے) فارغ ہو جاؤ تو جو چاہو مانگو، دیا جائے گا۔" (ابوداؤد)
تشریح
صحابی کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ اذان دیتے ہیں وہ تو اذان دینے کی سعادت و برکت کی وجہ سے ہماری بہ نسبت زیادہ ثواب کے حقدار ہوتے ہیں اس لئے ہمیں بھی کوئی ایسا طریقہ بتا دیجئے جس پر چل کر ہم بھی ثواب میں ان کے ہم پلہ ہو جائیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ طریقہ بتا دیا کہ جب مؤذن اذان کے کلمات کہے تو تم بھی ان کے ساتھ اذان کے کلمات دہراتے جاؤ (سوائے حی علی الصلوۃ وحی علی الفلاح کے کہ ان کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الا باا اللہ کہنا چاہئے) اسی طرح تمہیں بھی ان کے اصل ثواب کی طرح ثواب ملے گا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری چیز اذان کے جواب سے فراغت کے بعد دعاء مانگنے کو بتا کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ اگر اذان کا جواب دینے کے بعد دعاء مانگی جائے تو فضیلت و بزرگی میں اور اضافہ ہوگا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی اذان کے وقت مسجد میں موجود ہو تو اسے بھی اذان کے کلمات کا جواب دینا چاہئے۔ جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ اذان کے وقت مسجد میں موجود آدمی کو اذان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس وقت جب اجابت فعلی حاصل ہے تو اجابت قولی کی کیا ضرورت ہے۔ دل کو لگنے والی بات نہیں۔