اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِی اُمَامَۃَ اَوْبَعْضُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ بِلَالًا اَخَذَ فِی الْاِ قَامَۃِ فَلَمَّا اَنْ قَالَ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَقَامَھَا اﷲُ وَاَدَامَھَا وَقَالَ فِی سَائِرِ الْاِ قَامَۃِ کَنَحْوِ حَدِیْثِ عُمَرَ فِی الْاِذَانِ۔ (رواہ ، ابوداؤد)
" اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی اور صحابی فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تکبیر کہنی شروع کی۔ جب انہوں نے قد قامت الصلوۃ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے جواب میں) فرمایا: اَقَامَھَا ا وَاَدَمَھَا یعنی اللہ تعالیٰ نماز کو قائم و دائم رکھے اور تکبیر کے بقیہ کلمات کے جوابات وہی فرمائے جس کا ذکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان والی حدیث میں ہو چکا ہے۔" (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اسی باب کی حدیث نمبر پانچ میں اذان کے کلمات اور ان کے جواب کو جس طرح ذکر کیا گیا ہے اسی طرح تکبیر کے وقت مؤذن جو کلمات کہتا گیا ۔ آپ بھی ویسے ہی کلمات کو دہراتے رہے البتہ حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الابا اللہ اور قد قامت الصلوۃ کے جواب میں اَقَامَھَا ا وَاَدَمَھَاکہا۔