اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْمُؤَذِّنُ یُغْفَرُلَہ، مَدیَ صَوْتِہٖ وَیَشْھَدُ لَہُ کُلُّ رَطْبٍ وَیَابِسٍ وَشَّاھِدُ الصَّلَاۃِ یُکْتَبُ لَہ، خَمْسٌ وَعِشْرُوْنَ صَلَاۃً وَ یُکَفَّرُ عَنْہُ مَا بَیْنَھُمَا رَوَاہُ اَحْمَدُ وَاَبُوْداَؤدَ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَی النِّسَائِیُّ اِلَی قَوْلِہٖ کُلَّ رَطْبٍ وَیَابِسٍ وَقَالَ لَہُ مِثْلُ اَجْرِمَنْ صَلَّی۔
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان دینے والے کی بخشش اس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اس کے ایمان کے گواہ ہو جاتے ہیں۔ پچیس نمازوں کا ثواب (اس کے زائد اعمال میں) لکھا جاتا ہے اور نمازوں کے درمیان اس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں معاف ہو جاتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور نسائی نے اس روایت کو کل رطب و یابس تک نقل کیا ہے ، اور یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ وَلَہُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ صَلّٰی یعنی اور اسے نماز پڑھنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔"
تشریح
" آواز کی انتہا کے مطابق بخشش" کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن اذان کہتے وقت جس قدر آواز بلند کرتا ہے اس کی مغفرت اسی قدر ہوتی ہے اور اگر وہ آواز کو انتہائی درجے تک پہنچا دیتا ہے یعنی اس کی جتنی طاقت ہوتی ہے اتنی ہی آواز بلند کرتا ہے تو مغفرت بھی پوری ہی پاتا ہے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اگر گناہ کا جسم فرض کیا جائے اور وہ اتنے ہوں کہ مؤذن کی آواز جہاں تک بھی پہنچے وہاں تک سما جائیں تو اس کے وہ سب گناہ بخشش دیئے جاتے ہیں۔
رطب (تر) سے مراد وہ مخلوق ہیں جن میں نمو ہوتا ہے جیسے انسان اور نباتات وغیرہ اور یا بس (خشک) سے جمادات یعنی پتھر اور مٹی وغیرہ مراد ہیں۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ لفظ وَشَاھِدُ الصَّلٰوۃَ لفظ اَلْمُؤَذِنُ پر عطف کیا گیا ہے اس طرح پورے جملہ کے معنی یہ ہوں گے " مغفرت کی جاتی ہے مؤذن کی اور ان لوگوں کی جو جماعت میں حاضر ہوتے ہیں۔"
مگر ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس کا عطف کل رطب پر ہے اور اسے عطف خاص علیٰ عام کہا جاتا ہے یکتب لہ اور عنہ کی ضمیر یا تو شَاھِدُ کی طرف راجع ہے یا پھر مؤذن کی طرف راجع ہوگی۔
حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن نمازیوں کا سا ثواب پاتا ہے کیونکہ یہ ان کو نماز کی طرف بلاتا ہے اور حدیث میں وارد ہے کہ جو آدمی بھلی بات کا باعث ہوتا ہے اسے اس بھلائی کے کرنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے۔