اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَۃٌ عَلَی کُثْبَانِ الْمِسْکِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَبْدٌ اَدَّ ی حَقَّ اﷲِ وَحَقَّ مَوْلَاہُ وَرَجُلٌ اَمَّ قَوْمًا وَھُمْ بِہٖ رَاضُوْنَ وَرَجُلٌ یُنَادِی بِالصَّلٰوۃِ الْخَمْسِ کُلَّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھَذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے۔ (پہلا ) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر کے اپنے آقا کے حقوق بھی اداء کئے اور (دوسرا) وہ آدمی جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں اور (تیسرا) وہ آدمی جو رات دن (یعنی ہمیشہ) پانچوں وقت کے نماز کے لئے اذان کہتا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔"
تشریح
" عبد" سے مراد مملوک ہے خواہ غلام ہو یا لونڈی، امام سے لوگوں کو خوش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام سے اس وجہ سے مطمئن و راضی ہوتے ہیں کہ وہ نماز کے احکام و ارکان اور سنن و آداب کی پوری پوری رعایت کرتا ہے۔ اور قرأت اصول و قواعد کے مطابق نیز عمدہ آواز کے ساتھ کرتا ہے لیکن اتنی بات ملحوظ رہے کہ اس سلسلے میں اعتبار اکثر لوگوں کا ہوگا جو کہ صاحب علم و فراست ہوں۔
بہر حال قیامت کے روز ان تینوں کو مشک کے ٹیلے اس لئے ملیں گے کہ یہ لوگ دنیا میں خواہشات نفسانی کی لذتوں کو اطاعت الہٰی اور فرمانبرداری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سختیوں پر قربان کر دیں گے اس لئے پروردگار عالم اس کے صلہ میں انہیں خوشبو کی صورت میں عظیم انعام عطا فرمائے گا تاکہ دوسرے لوگوں پر ان کی عظمت و بزرگی ظاہر ہو سکے۔