اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَقْبَۃَ بْنِ عَامِرِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْجَبُ رَبُّکَ مِنْ رَاعِی غَنَمِ فِی رَأْسٍ شَظِیَّۃٍ لِلْجَبَلِ یُؤَذِّنُ بِالصَّلَاۃِ وَیُصَلِّی فَیَقُوْلُ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ اُنْظُرُوْ اِلٰی عَبْدِی ھٰذَا یُؤَذِّنُ وَیُقِیْمُ الصَّلَاۃَ یَخَافُ مِنِّی قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِی وَاَدْخَلْتُہُ الْجَنَّۃَ۔ (رواہ ابوداؤدوالسنن نسائی )
" اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کے لئے اذان کہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے ۔ چنانچہ اللہ بزرگ و برتر (ملائکہ اور ارواح مقربین سے) فرماتا ہے۔ میرے اس بندے کی طرف دیکھو وہ اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے، چنانچہ میں نے بھی اس بندے کے گناہ بخش دیئے ہیں اور میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔" (ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
یعنی وہ چرواہا جو لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اور دنیا کے علائق سے دست بردار ہو کر پہاڑ کی چوٹی پر بسیرا کئے ہوئے ہے جب نماز کا وقت آتا ہے تو اذان کہہ کر اللہ اور اس کے رسول کا نام بلند کرتا ہے اور پابندی سے نماز ادا کر کے اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔
ابن ملک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اذان دینے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی اذان کے ذریعے ملائکہ اور جنات نماز کے وقت سے مطلع ہو جاتے ہیں، نیز یہ کہ اس کی اذان مخلوقات میں سے جو چیز بھی سنتی ہے قیامت کے روز اس کے ایمان کی گواہی دے گی اور سنت کی اتباع ہوتی ہے اور جماعت کے معاملے میں اسے مسلمانوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔
اذان سے اعلام عام یعنی اذان و تکبیر دونوں مراد ہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایسا آدمی جب اذان و تکبیر کہتا ہے تو ملائکہ اس کے ہمراہ نماز میں شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اسے جماعت کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ وا اللہ اعلم۔
" مجھ سے ڈرتا ہے" کا مطلب یہ ہے کہ اس بندے کی عبادت کا مقصد نمائش و ریا نہیں ہے بلکہ وہ میرے عذاب سے چونکہ ڈرتا ہے اس لئے اذان بھی کہتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اکیلے آدمی کو بھی اذان و تکبیر کہنا مستحب ہے۔