اذان کا بیان
راوی:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ حِےْنَ قَدِمُوا الْمَدِےْنَۃَ ےَجْتَمِعُوْنَ فَےَتَحَےَّنُوْنَ لِلصَّلٰوۃِ وَلَےْسَ ےُنَادِیْ بِھَا اَحَدٌ فَتَکَلَّمُوْا ےَوْمًا فِیْ ذَالِکَ فَقَالَ بَعْضُھُمْ اِتَّخِذُوْا مِثْلَ نَاقُوْسِ النَّصَارٰی وَقَالَ بَعْضُھُمْ قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْےَھُوْدِ فَقَالَ عُمَرُ اَوَلَا تَبْعَثُوْنَ رَجُلًا ےُّنَادِیْ بِالصَّلٰوۃِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلٰوۃِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسلمان مدینہ میں آکر جمع ہوگئے تو نماز کے لئے وقت اور اندازہ معین کرنے لگے (کیونکہ) کوئی آدمی نماز کے لئے بلانے والانہ تھا (ایک روز) جب اس مسئلے پر گفتگو ہوئی تو بعض نے کہا کہ نصاری کی طرح ناقوس بنا لیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح سینگ بنا لیا جائے (یہ تمام تجاویز سن کر) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک آدمی کیوں نہ مقرر کر دیا جائے جو نماز کے لئے (لوگوں کو) بلا لیا کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )! کھڑے ہو کر نماز کے لئے منادی دیا کرو۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منادی کرنے کا جو حکم دیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر الصلوۃ جامعۃ کہہ دیا کرو۔ یہ آواز سن کر لوگ نماز کے لئے حاضر ہو جایا کریں گے۔ لہٰذا " مناوی" سے مراد نماز کے لئے محض اعلان کرنا ہے نہ کہ اس سے شرعی مناوی یعنی اذان مراد ہے۔ اس توجیہ سے پہلی احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے کہ پہلے ایک مجلس میں اس طرح اعلان کرنے کی تجویز پاس ہوئی پھر بعد میں جب دوسری مجلس میں اس پر بحث و مباحثہ ہوا تو حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کا خواب دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو وحی آجانے کے بعد یا اپنے اجتہاد سے کام لے کر حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کے مطابق اذان مشروع فرمائی۔