اذان کا بیان
راوی:
وَعَنْ زِیَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِیِّ قَالَ اَمَرَنِی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ اَذِنْ فِی صَلٰوۃِ الْفَجْرِ فَاَذَّنْتُ فَاَرَا دَ بِلَالٌ اَنْ یُقِیْمَ فَقَالَ رَسُْولُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماِنَّ اَخَاصُدَاءِ قَدْ اَذَّنَ وَمَنْ اَذَّنَ فَھُوَ یُقِیْمُ۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ)
" حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فجر کی نماز کے لئے اذان کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ میں نے اذان کہی، پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدائی کے بھائی نے اذان کہی تھی اور جو اذان کہے اسی کو تکبیر بھی کہنی چاہئے۔ " (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)
تشریح
اخاء صداء یعنی صدائی کے بھائی سے مراد زیاد ابن حارث صدائی ہیں، عرب میں قاعدہ تھا جو آدمی جس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اسے اس قبیلہ کا بھائی کہا جاتا ہے۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اس حدیث کے مطابق غیر مؤذن کو تکبیر کہنا مکروہ ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ اکثر و بیشتر حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کہتے تھے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تکبیر کہتے تھے ۔ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ اگر غیر مؤذن تکبیر کہنا چاہئے تو مؤذن سے اجازت لے لے۔ اگر مؤذن کو کسی دوسرے کی تکبیر کہنا ناگوار ہو تو پھر غیر مؤذن کو تکبیر کہنا مناسب نہیں ہے۔