اذان کا بیان
راوی:
وَعَنْ جَابِرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِبِلَالٍ اِذَاَزَّنْتَ فَتَرَسَّلْ وَاِذَا اَقَمْتَ فَاَحْدُرْ وَاجْعَلْ بَیْنَ اَذَانِکَ وَاِقَامَتِکَ قَدْرَ مَایَفِْرَغُ الْاٰکِلُ مِنْ اَکْلِہٖ وَالشَّارِبُ مِنْ شُرْبِہٖ وَالْمُعْتَصِرُ اِذَا دَخَلَ لِقَضَآءِ حَاجَتِہٖ وَلَا تَقُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْنِیْ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ لَانَعْرِفُہ، اِلَّا مِنْ حَدِیْثِ عَبْدِالْمُنْعِمِ وَھُوَ اِسْنَاد مَجْھُوْلٌ۔
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ جب تم اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر کہا کرو اور جب تکبیر کہو تو جلدی جلدی کہا کرو اور اذان و تکبیر کے درمیان اتنا وقفہ کیا کرو کہ کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے والا پینے سے، قضائے حاجت والا اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے اور اس وقت تک نماز کے لئے کھڑے نہ ہو جب تک مجھے (نماز پڑھانے کے لئے آتا ہوا) نہ دیکھ لو۔ اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس حدیث کو سوائے عبدالمنعم کے اور کسی سے نہیں جانتے اور اس کی سند مجہول ہے۔ "
تشریح
اذان کو ٹھہر ٹھہر کر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کلمات کو ایک دوسرے سے جدا جدا کر کے اور خفیف سے سکتہ کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ادا کرو۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں اتنی ڈھیل کرو کہ کلمات بغیر کھینچے ہوئے تاکہ حد سے تجاوز نہ ہو واضح واضح کہہ سکو۔ اسی وجہ سے موذنوں کے لئے تاکید ہے کہ وہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں احتیاط سے کام لیں اور قواعد کے مطابق اذان کہیں تاکہ غلطیوں کا ارتکاب نہ ہو سکے کیونکہ بعض غلطیاں ایسی ہیں کہ ان کو قصدا کرنے والا کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے جیسے اشھد کے الف کو مد کے ساتھ ادا کرنا کہ یہ استفہام ہو جاتا ہے اور جس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ کیا میں گواہی دوں الخ؟ یا اللہ اکبر میں حرف با کو مد کے ساتھ کھیچ کر (اکبار) پڑھنا کہ یہ لفظ کبر کی جمع ہو جاتی ہے جس کے معنی اس طبلے کے آتے ہیں جس کا ایک منہ ہوتا ہے اور دائرے کی شکل میں ہوتا ہے یا اسی طرح لفظ الہ پر وقف کرنا اور اللہ سے ابتداء کرنا۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب مؤذن تکبیر کے لئے کھڑا ہو تو مجھے مسجد میں آتا ہوا نہ دیکھ لو تو نماز کے لئے کھڑے نہ ہو، کیونکہ امام کی آمد سے پہلے ہی کھڑے ہو جانا خواہ مخواہ کی تکلیف اٹھانا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لئے اپنے حجرہ مبارک سے اس وقت نکلتے ہوں گے جب کہ مؤذن تکبیر شروع کر دیتا ہوگا اور جب مؤذن تکبیر کہتا ہوا حی علی الصلوۃ پر پہنچتا ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت محراب میں داخل ہوتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نے کہا ہے کہ جب مؤذن تکبیر شروع کر دے اور حی علی الصلوۃ پر پہنچتے تو امام اور مقتدیوں کو کھڑے ہو جانا چاہئے اور جب مؤذن قد قامت الصلوہ پر پہنچے تو نماز شروع کر دینی چاہئے۔