مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 606

اذان کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ صقَالَ اَلْقٰی عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم التَّاذِےْنَ ھُوَ بِنَفْسِہٖ فَقَالَ قُلْ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔ثُمَّ تَعُوْدُ فَتَقُوْلُ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ ۔حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ ۔حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ۔حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ۔اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ ۔لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( آپ کا اسم گرامی سمرہ بن معبر ہے اور ابومحذورہ کی کنیت سے مشہور ہیں۔ آپ نے ہجرت نہ کی آپ مؤذن تھے اور مکہ ہی میں انتقال کیا ١٢ ) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خود (بغیر واسطے کے) اذان سکھلائی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو! اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں (یعنی جانتا اور بیان کرتا ہوں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، پھر فرمایا کہ دوبارہ کہو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ آؤ نماز کی طرف آؤ نماز کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
" اللہ اکبر" کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس چیز سے بہت بلندوبالا ہے کہ کوئی آدمی اس کی کبریائی و عظمت کی حقیقت کو پہچانے۔ یا اللہ تعالیٰ اس حیثیت سے بہت بڑا ہے کہ اس کی ذات پاک کی طرف ان چیزوں کی نسبت کی جائے جو اس کی عظمت و بزرگی کے مناسب نہیں ہیں، یا پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ رب العزت تمام چیزوں سے بہت بڑا ہے۔
اذان و تکبیر میں اللہ اکبر کی حرف را ساکن ہوتی ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد اور جمہور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ کلمہ اذان میں پہلی بار چار مرتبہ کہا جاتا ہے اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک دو مرتبہ کہا جاتا ہے۔
اس کلمہ کو چار مرتبہ کہنے میں یہ لطیف نکتہ ہے کہ گویا یہ حکم چار دانگ عالم میں جاری و حاوی ہے اور عناصر اربعہ سے مرکب نفس انسانی کی خواہشات کے تزکیہ میں بہت موثر ہے۔
حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ تم ہر مکروہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ہر مراد کے ملنے کی طرف آؤ۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ فلاح کے معنی بقا کے ہیں یعنی اس چیز کی طرف دوڑو جو عذاب سے چھٹکارے کا باعث، ثواب ملنے کا سبب اور آخرت میں بقاء کا ذریعہ ہے اور وہ چیز نماز ہے۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک اذان میں ترجیع یعنی شہادتین کو دو مرتبہ کہنا سنت ہے۔ ترجیع کی شکل یہ ہوتی ہے کہ پہلے شہادتیں کو دو مرتبہ پست آواز سے کہا جاتا ہے پھر دو مرتبہ بلند آواز سے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے۔
علمائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ یہ تکرار حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیم کے لئے تھا نہ کہ تشریع کے لیے۔ یعنی پہلی مرتبہ ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شہادتین کو پست آواز سے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان کلمات کو پھر ادا کرو اور بلند آواز سے ادا کرو چنانچہ اس سلسلے میں حضرت ابومحذورہ کی جو ایک دوسری روایت منقول ہے اس میں ترجیع نہیں ہے۔
نیز حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں بھی جو اذان کے باب میں اصل کی حیثیت رکھتی ہے ترجیع نہیں ہے ۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو موذنوں کے سردار ہیں، نہ ان کی اذان میں اور نہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان میں جو مسجد نبوی میں اذان کہتے تھے اور نہ ہی حضرت سعد قرط رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان میں جو مسجد قبا کے مؤذن تھے ترجیع منقول ہے ۔ پھر یہ کہ اس سلسلے میں حضرت ابی محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ تکرار شہادتین کی تعلیم کے لئے تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں