مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 605

اذان کا بیان

راوی:

عَنْ اَنَسٍ قَالَ ذَکَرُوْا النَّارَ وَالنَّاقُوْسَ فَذَکَرُوا الْےَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی فَاُمِرَ بِلَالٌ اَنْ ےَشْفَعَ الْاَذَانَ وَاَنْ ےُّوْتِرَ الْاِقَامَۃَ قَالَ اِسْمَاعِےْلُ فَذَکَرْتُہُ لِاَےُّوْبَ فَقَالَ اِلَّا الْاِقَامَۃَ ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (اذان کی مشروعیت سے پہلے نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے سلسلے میں) آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ بعض لوگوں نے یہود و نصاری کا ذکر کیا (کہ ان کی مشابہت ہوگی) پھر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اذان کے کلمات جفت کہیں (یعنی اذان کے شروع میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہیں اور باقی کلمات سوائے آخری کلمہ ( لاالہ الا اللہ ) کے جو ایک مرتبہ کہا جاتا ہے وہ دو مرتبہ کہیں (اور تکبیر کے کلمات (سوائے اللہ اکبر کے) ایک ایک مرتبہ کہیں) شیخ اسماعیل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (جو اس حدیث کے راوی اور امام بخاری و امام مسلم کے استاذ ہیں) فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ایوب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے (جو اس حدیث کے راوی ہیں اور جنہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے) کیا تو انہوں نے فرمایا کہ لفظ قدقامت الصلوۃ دو مرتبہ کہنا چاہئے (یعنی تکبیر کے اول و آخر میں " اللہ اکبر" کے علاوہ بقیہ کلمات ایک ایک مرتبہ ہیں اور لفظ قد قامت الصلوۃ دو مرتبہ ہے)۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لئے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہئے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو اوقات نماز کی اطلاع ہو جایا کرے تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہو جائیں اور جماعت سے نماز ہو سکے چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر آگ روشن کر دی جایا کرے تاکہ اسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں بعض نے رائے دی ناقوس بجانا چاہئے تاکہ اس کی آواز سن کر لوگ مسجد میں حاضر ہوجائیں۔
چند صائب الرائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ان تجویزوں کے سلسلے میں عرض کیا کہ آگ تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لئے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ناقوس نصاری اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لئے بجاتے ہیں لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہ کرنے چاہئیں تاکہ یہود و نصاری کی مشابہت لازم نہ آئے ، لہٰذا ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہئے۔
بات معقول تھی اس لئے بغیر کسی فیصلے کے مجلس برخاست ہوئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اپنے اپنے گھر آگئے۔ ایک مخلص صحابی حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلے میں بہت فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آتا تو بہت پریشان ہوئے ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی طرح جلد از جلد طے ہو جائے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فکر دور ہو جائے چنانچہ یہ اسی سوچ و بچار میں گھر آکر سو گئے خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ شکل ان کے سامنے کھڑا ہو ااذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت میں بالکل سویا ہوا نہیں تھا بلکہ غنودگی کے عالم میں تھا اور بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر بدگمانی کا خوف نہ ہوتا تو میں کہتا کہ میں اس وقت سویا ہی نہیں تھا۔ اسی بناء پر بعض علماء کرام نے اس واقعہ کو حال اور کشف پر محمول کیا ہے جو ارباب باطن کو حالت بیداری میں ہوتا ہے۔
بہر حال حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کو اٹھ کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ خواب سچ ہے اور فرمایا کہ بلال کو اپنے ہمراہ لو، تم انہیں وہ کلمات جو تمہیں خواب میں تعلیم فرمائے گئے ہیں بتاتے رہو وہ انہیں زور سے ادا کریں گے کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔
چنانچہ جب اس طرح دونوں نے اذان دی اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ابھی جو کلمات ادا کئے گئے ہیں میں نے بھی خواب میں ایسے ہی کلمات سنے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات کو دس گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔
" ناقوس" نصاری کے ہاں عبادت کے وقت کی خبر دینے کے سلسلے میں استعمال ہوتا تھا اور اس کی شکل یہ ہوتی تھی کہ وہ لوگ ایک بڑی لکڑی کو کسی چھوٹی لکڑی پر مارتے تھے اس سے جو آواز پیدا ہوتی تھی وہی عبادت کے وقت کا اعلان ہوتی تھی۔
یہودیوں کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت کے وقت سینگ بجایا کرتے تھے چنانچہ آگ جلانے کا ذکر صرف حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور کسی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے ہاں دو فرقے ہوں گے ایک فرقہ تو سینگ بجاتا ہوگا اور دوسرا فرقہ آگ جلاتا ہوگا۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان کے کلمات (شروع میں اللہ اکبر کے علاوہ) تو جفت ہیں اور اقامت کے کلمات طاق ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام و تابعین عظام میں سے اکثر اہل علم اور امام زہری، امام مالک، امام شافعی، امام اوزاعی، امام اسحاق اور امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے متبعین کے نزدیک اذان و تکبیر دونوں کے کلمات جفت ہیں ان کی دلیل آگے آئے گی۔

یہ حدیث شیئر کریں