نماز کے فضائل کا بیان
راوی:
وَعَنْ مَالِکٍ بَالَغَۃُ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ وَ عَبْدَاﷲِ بْنَ عَبَّاسٍ کَانَ یَقُوْ لَا نِ الصَّلٰوۃُ الْوُسْطٰی صَلَاۃُ الصُّبْحِ رَوَاہُ فِی الْمُوطَّا وَرَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ تَعْلِیْقًا۔
" اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کہا کرتے تھے کہ درمیانی نماز (سے مراد) صبح کی نماز ہے۔ (موطا امام مالک) اور یہ روایت حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق تعلیق نقل کی ہے۔"
تشریح
یہ بھی ان دونوں حضرات کا اپنا اجتہاد ہے کہ ان حضرات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہ پہنچی ہوگی اس لئے انہوں نے بطریق احتمال کہا کہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے۔
بہر حال۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہی ہے یہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے مگر حضرت امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ جو شافعی المسلک ہیں فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں صحیح احادیث منقول ہیں کہ درمیانی نماز سے مراد نماز عصر ہے۔
گو حضرت ماوردی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو شوافع کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ تصریح کر دی ہے کہ صبح کی نماز درمیانی نماز ہے۔ تاہم ان صحیح احادیث کو دیکھتے ہوئے جن سے بصراحت ثابت ہے کہ عصر کی نماز ہی درمیانی نماز ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شافعی مسلک میں بھی یہی ہوگا کیونکہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ " اگر تم ایسی حدیث پاؤ جس کے برخلاف میں نے حکم دے رکھا ہو تو میرا صحیح مسلک وہی سمجھنا جو صحیح حدیث سے ثابت اور میرا پہلا حکم دیوار پر پھینک مارنا " ۔