نماز کے فضائل کا بیان
راوی:
وَعَنْ عُمَارَۃَ بْنِ رُوَےْبَۃَ ص قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقُوْلُ لَنْ ےَّلِجَ النَّارَ اَحَدٌ صَلّٰی قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَاےَعْنِی الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ۔ (صحیح مسلم)
" حضرت عمارہ ابن رویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( حضرت عمیرہ رویبہ کے صاحبزادے اور قبیلہ بنی جثم بن ثقیف سے ہیں اور کوفی ہیں١٢۔) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے سورج نکلنے اور چھپنے سے پہلے ( دو نمازیں) یعنی فجر اور عصر کی پڑھیں تو وہ دوزخ میں ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ " (رواہ صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں کو پابندی سے پڑھتا رہے تو وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا۔ بظاہر یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں پر مداومت کرے گا، وہ دوسری نمازوں کو چھوڑنے یا دوسرے گناہوں کے صدور کے سبب دوززخ میں داخل نہیں کیا جائے گا حالانکہ جمہور علماء کرام کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ نمازیں صغیرہ گناہوں کا کفارہ تو ہو جاتی ہیں۔ کبیرہ گناہوں کا نہیں ہوتیں۔ چنانچہ علامہ طیبی نے اس حدیث کی توجیہہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ صبح کا وقت عام طور پر آرام کا ہوتا ہے اسی طرح شام کا تجار وغیرہ کی مشغولیت کا ہوتا ہے لہٰذا جو آدمی ان دونوں موانع کے باجود ان دونوں نمازوں کی مخافظت کرتا ہے تو وہ بزبان حال اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ دوسرے اعمال میں بھی کمی زیادتی کرنے والا نہیں ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَا ءِ وَالْمُنْكَرِ ) 29۔ العنکبوت : 45) (بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے) لہٰذا اس بناء پر وہ بخشش کی سعادت سے نوازا جائے گا اور دوزخ میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
اور ظاہر یہ ہے کہ اس حدیث سے ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت کے بیان میں مبالغہ مراد ہے کہ ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کی محافظت کرنے والا آدمی دوزخ میں داخل نہ کیا جائے گا اور باوجودیکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ہر عمل پر جزاء و سزا کا ترتب کرتا ہے مگر وہ چاہے تو ان دونوں نمازوں کے ادا کرنے کے سبب وہ گناہ جو اس کے بندوں سے سرزد ہوئے ہوں بخش سکتا ہے