مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 570

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَےْسَ فِی النَّوْمِ تَفْرِےْطٌ اِنَّمَا التَّفرَےْطُ فِی الْےَقَظَۃِ فَاِذَا نَسِیَ اَحَدُکُمْ صَلٰوۃً اَوْ نَامَ عَنْھَا فَلْےُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔(پ ١٦ رکوع ١٠)۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوتے میں نماز کا رہ جانا قصور میں شمار نہیں بلکہ قصور تو جاگتے میں (شمار) ہوتا ہے (کہ وہ اس طرح سویا) لہٰذا جب تم میں سے کوئی پڑھنے سے رہ جائے یا نماز کے وقت (غافل ہو کر ) سو جائے تو جس وقت بھی یاد آئے پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ) 20۔طہ : 14) (مجھے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لیا کرو۔)" (صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز سے پہلے غافل ہو کر سو جائے تو اس حالت میں نماز کی تاخیر کے قصور کی نسبت سونے والے کی طرف نہیں ہوتی کیونکہ وہ سونے کی حالت میں مکلف نہیں ہے بلکہ مجبور ہے البتہ اس کی طرف قصور کی نسبت جاگنے کی حالت میں ہوگی کہ اس نے ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا جس کی وجہ سے وہ نماز پڑھے بغیر سو گیا مثلاً وقت سے پہلے سو گیا تو اس میں اس کی خطا ہے ایسے ہی اس نے ایسے کام کئے جو نیند کا سبب ہیں مثلاً لیٹ گیا یا شطرنج کے کھیل یا ایسے دوسرے کاموں میں مشغول رہا جو نسیان و بھول کا باعث ہوتے ہیں تو اس میں اس کا قصور ہے۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ نماز کا یاد کرنا بمنزلہ اللہ کے یاد کرنے کے ہے اس لئے نماز یاد کرنے کو اللہ نے اپنا یاد کرنا قرار دے کر فرمایا کہ جب مجھے یاد کرو یعنی نماز جب تمہیں یاد آئے کہ وہ میرے یاد کرنے کا سبب ہے تو پڑھ لیا کرو۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ لذکری کے معنی یہ ہیں کہ میں جب تمہیں نماز یاد دلادوں اور اس وقت نماز پڑھ لیا کرو تمہارا کچھ قصور نہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں