مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 559

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

راوی:

وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تِلْکَ صَلٰوۃُ الْمُنَافِقِ ےَجْلِسُ ےَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتّٰی اِذَا اصْفَرَّتْ وَکَانَتْ بَےْنَ قَرْنَیِ الشَّےْطَانِ قَامَ فَنَقَرَ اَرْبَعًا لَّا ےَذْکُرُ اللّٰہَ فِےْھَا اِلَّا قَلِےْلًا۔ (صحیح مسلم)

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ (عصر کی نماز جو آخر وقت میں پڑھی جاتی ہے ) منافق کی نماز ہے وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے جب سورج زرد ہو کر شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان (چھپنے کے قریب) ہو جاتا ہے تو جلدی سے اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اللہ کا ذکر بھی اس نماز میں قدرے کم ہی کرتا ہے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
" ٹھونگیں مارنے" کا مطلب یہ ہے وہ بغیر طمانیت و سکون کے اس طرح جلدی جلدی سجدے کرتا ہے جیسے جانور دانہ چگتا ہے عصر کی نماز میں سجدے آٹھ ہوتے ہیں مگر یہاں چار اس لئے فرمائے ہیں کہ جب اس نے پہلا سجدہ کر کے اچھی طرح سر نہیں اٹھایا تو گویا دونوں سجدے ایک سجدہ کے حکم میں آگئے یا دونوں سجدوں کو ایک ہی رکن مانتے (سمجھتے ) ہوئے بجائے آٹھ کے چار کا ذکر فرمایا ہے۔
یہاں صرف عصر کی نماز کا ذکر کیا گیا ہے دوسری نمازوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نماز وسطی ہے اور یوں تو سب ہی نمازوں میں ارکان و آداب کا لحاظ نہ کرنا بری بات ہے مگر دوسری نمازوں کی بہ نسبت اس نماز کو دل جمعی اور سکون خاطر کے ساتھ نہ پڑھنا اور اس کے ارکان و آداب کا لحاظ نہ کرنا بہت ہی بری بات ہے۔
مولانا مظہر فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے عصر کی نماز کو سورج کے زرد ہونے تک موخر کیا تو اس نے اپنے آپ کو منافقین کے مشابہ ظاہر کیا کیونکہ منافق نماز کی صحت و تکمیل کا کوئی خیال نہیں کرتا وہ تو صرف ظاہری طور پر مسلمان بن کر تلوار سے بچنے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور اسے نماز میں اتنی زیادہ تاخیر کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ اسے اجر و ثواب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ منافقین کی عملاً و فعلاً مخالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز کو وقت مختار میں پڑھ لیا کریں۔

یہ حدیث شیئر کریں