جلدی نماز پڑھنے کا بیان
راوی:
وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ صَلٰوۃِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ کَانَ ےُصَلِّی الظُّہْرَ بِالْھَاجِرَۃِ وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ حَےَّۃٌ وَالْمَغْرِبَ اِذَا وَجَبَتْ وَالْعِشَآءَ اِذَا کَثُرَالنَّاسُ عَجَّلَ وَاِذَا قَلُّوْا اَخَّرَ وَالصُّبْحَ بِغَلَسٍ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت محمد بن ابن عمرو ابن حسن ابن علی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپہر ڈھلے پڑھتے تھے اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ سورج زنار (یعنی روشن) ہوتا تھا اور مغرب کی نماز آفتاب غروب ہونے کے بعد پڑھتے تھے اور عشاء کی نماز میں جب لوگ زیادہ آجاتے تو جلدی ہی پڑھ لیتے تھے اور جب لوگ کم ہوتے تو تاخیر کر کے پڑھتے تھے اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھ لیتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
عشاء کی نماز کے بارے میں یہاں وضاحت کر دی گئی ہے کہ اگر لوگ زیادہ آجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جلدی پڑھ لیتے اور اگر کم آتے تو تاخیر کر کے پڑھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جماعت کی کثرت کی پیش نظر نماز کو اوّل وقت سے تاخیر کر کے پڑھنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔ چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین نے اوّل وقت نماز پڑھنے کا التزام اسی لئے نہیں کیا ہے کہ تاخیر سے نماز پڑھنے میں جماعت میں کثرت ہوجاتی ہے نہ یہ کہ ان حضرات کے نزدیک اوّل وقت افضل نہیں ہے ۔ اوّل وقت تو بہر صورت افضل ہے لیکن بعض خارجی عوارض جیسے جماعت کی کثرت وغیرہ کی بناء پر تاخیر ہی اولیٰ ہوتی ہے۔
صبح کی نماز تاریکی میں پڑھنے کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ صحابہ کرام رات بھر سونے کے بجائے ذکر و عبادت میں مشغول رہنے کی وجہ سے صبح سویرے ہی مسجد میں موجود رہتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کی کثرت کے پیش نظر جلدی پڑھ لیتے تھے۔
آخر میں اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اس حدیث سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقلاً تاریکی ہی میں فجر کی نماز پڑھتے تھے اور اگر بفرض محال اسے مان بھی لیا جاے تو یہ ثابت ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز روشنی میں پڑھنے کا حکم دیا ہے اور حنفیہ کے نزدیک فعل کے مقابلے میں امر (یعنی حکم) کو ترجیح دی جاتی ہے۔