نماز کے اوقات کا بیان
راوی:
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ اَنَّہ، کَتَبَ اِلٰی عُمَالِہٖ اَنَّ اَھَمَّ اُمُوْرِکُمْ عِنْدِی الصَّلَاۃُ مَنْ حَفِظَھَا وَ حَافَظَ عَلَیْھَا حَفِظَ دِیْنَہ، وَمَنْ ضَیَّعَھَا فَھُوَ لِمَا سِوَاھَا اَضْیَعُ ثُمَّ کَتَبَ اَنْ صَلُّو ا الظُّھْرَ اِذَا کَانَ الْفَیْئُ ذِرَاعًا اِلٰی اَنْ یَکُوْنَ ظِلُّ اَحَدِ کُمْ مِثْلَہُ وَالْعَصْرُ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ بَیْضَاءُ نَقِیَّۃٌ قَدْرَ مَا یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فَرْسَخَیْنِ اَوْثَلَاثَۃً قَبْلَ مَغِیْبِ الشَّمْسِ وَالْمَغْرِبَ اِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ وَالعِشَاءَ اِذَا غَابَ الشَّفَقُ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَیْنُہ، وَالصُّبْحَ وَالنُّجُوْمُ بَادِیَۃٌ مُشْتَبِکَۃٌ۔ (رواہ موطا امام مالک)
" اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے عاملوں (یعنی اسلامی سلطنت کے حکام) کے پاس یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ تمہارے سب کاموں میں مہتم بالشان کام میرے نزدیک نماز کا پڑھنا ہے لہٰذا جس نے اس کی محافظت کی (یعنی ارکان و شرائط کے ساتھ نماز پڑھی، اور اس پر نگہبانی رکھی (یعنی اسے ہمیشہ اداء کرتا رہا اور ریاء و نمائش کے سبب اسے باطل نہ کیا) تو گویا اس نے اپنے دین (کے بقیہ امور کی نگہبانی و محافظت کی اور جس نے اسے ضائع کر دیا تو وہ اس چیز کو جو نماز کے علاوہ ہے بہت زیادہ ضائع کرنے والا ہے۔ پھر یہ لکھا کہ ظہر کی نماز ایک گز سایہ زوال ہونے سے لے کر ایک مثل سایہ تک (علاوہ سایہ اصلی کے) پڑھا کرو اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھا کرو کہ سورج اونچا اور سفید رہے اور سورج ڈوبنے میں) اتنا وقت رہے کہ کوئی سوار سورج ڈوبنے سے پہلے دو یا تین میل کا سفر طے کر سکے اور مغرب کی نماز سورج ڈوبنے کے بعد پڑھا کرو اور عشاء کی نماز شفق غائب ہونے کے وقت سے تہائی رات تک پڑھا کرو اور جو آدمی (عشاء سے پہلے ) سو جائے (تو اللہ کرے) ان کی آنکھوں کو سونا نصیب نہ ہو (تین مرتبہ یہ دعا کی اور لکھا ہے کہ) صبح کی نماز ایسے وقت پڑھو جب کہ ستارے گنجان چمکتے ہوئے ہوں (یعنی تاریکی میں پڑھو۔" (مالک)
تشریح
چونکہ نماز دین کا ستون اور بنیاد ہے نیز یہی وہ عبادت ہے جو برائیوں سے روکتی اور بھلائی و سعادت کے راستہ پر لگاتی ہے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس نے نماز کی محافظت کی گویا اس نے دین کے تمام امور کی محافظت کی۔ اسی طرح فرمایا کہ جس نے نماز کو ضائع کیا یعنی نماز یا تو بالکل پڑھی ہی نہیں اور اگر پڑھی تو شرائط و واجبات کا قطعًا لحاظ نہ کیا تو وہ نماز کے علاوہ دیگر واجبات و مستحبات اور دینی امور کو بہت زیادہ ضائع کرنے والا ہے کیونکہ نماز ہی عبادات کی اصل ہے جب اس نے اسی کا خیال نہ رکھا تو اس سے دوسرے امور دین کے خیال رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حکم کہ ظہر کی نماز ایک گز سایہ زوال ہونے کے وقت یعنی اس کے فورا بعد (کہ وہ ظہر کا اول وقت ہوگا) پڑھو۔ ان مقامات کے لئے ہے جہاں سایہ اصلی اسی قدر ہوتا ہے جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سایہ اصلی مقامات اور وقت کے اعتبار سے ہوتا ہے کہ کہیں تو زیادہ ہوتا ہے اور کہیں کم ہوتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشاء سے پہلے سونے والے کے بارے میں تین مرتبہ بد دعا تاکید و تہدید کے لئے فرمائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عشاء سے پہلے نماز پڑھے بغیر جو آدمی سو جائے اللہ اس کی آنکھوں کو سونا نصیب نہ کرے وہ بے آرامی و بے قراری میں مبتلا رہے۔
چنانچہ حضرت ابن حجر شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز سے پہلے سونا حرام ہے مگر حنفیہ کے نزدیک یہ حکم تفصیل پر محمول ہے یعنی اگر کوئی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے بعد نماز پڑھنے سے پہلے سوئے اور اسے اس بات کا گمان بھی ہو کہ میں نماز کے آخر وقت تک سوتا ہی رہوں گا تو اس کے لئے یہ سونا جائز نہ ہوگا۔ اور اگر اسے اپنے اوپر کامل اعتماد ہو کہ میں بغیر جگائے ایسے وقت اٹھ جاؤں گا کہ وقت کے اندر اندر پوری نماز پڑھ لوں گا تو اس کے لئے سونا جائز ہوگا۔
مذکورہ بالا حکم وقت شروع ہو جانے کے بعد سونے کے سلسلہ میں ہے لیکن وقت شروع ہونے سے پہلے سونے کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے ، چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس بارے میں بھی وہی پہلی تفصیل کی جائے گی۔ اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ وقت شروع ہونے سے پہلے سو جانا مطلق حرام نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی آدمی وقت شروع ہونے سے پہلے نماز کے لئے مکلف نہیں ہوتا۔