نماز کے اوقات کا بیان
راوی:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَّنِیْ جِبْرِیْلُ عِنْدَالْبَیْتِ مَرَّتَیْنِ فَصَلّٰی بِیَ الظُّھْرَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَ کَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاکِ وَصَلّٰی بِیَ الْعَصْرَحِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلُہُ وَصَلَّی بِیَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ اَفْطَرَ الصَّائِمُ وَصَلّٰی بِیَ الْعِشَآءَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ حِیْنَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَی الصَّائِمِ فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ صَلَّی بِیَ الظُّھْرَ حِیْنَ کَانَ ظِلُہ، مِثْلُہ، وَصَلَّی بِیَ الْعَصْرَ حِیْنَ کَانَ ظِلُّہ، مِثْلَیْہِ وَصَلَّی بِیَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ اَفْطَرَ الصَّائِمُ وَصَلَّی بِیَ الْعِشَاءِ اِلٰی ثُلُثِ الَّیْلِ وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ فَاَسْفَرَ ثُمَّ الْتَفَتَ اِلَیَّ فَقَالَ یَا مُحَمَّد ھٰذَا وَقْتُ الْاَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِکَ وَالْوَقْتُ مَا بَیْنَ ھٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی)
" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے (نماز کی کیفیت اور اوقات بتانے کے لئے) امام بن کر خانہ کعبہ کے نزدیک مجھے دو مرتبہ (دو روز) نماز پڑھائی چنانچہ (پہلے روز جس وقت سورج ڈھل گیا اور سایہ تسمے کے مانند تھا تو مجھے ظہر کی نماز پڑھائی اور جب ہر چیز کا سایہ (علاوہ سایہ اصلی کے) اس کے برابر ہو گیا تو مجھے عصر کی نماز پڑھائی اور جس وقت روزہ دار روز افطار کرتا ہے (یعنی سورج چھپنے کے بعد) تو مجھے مغرب کی نماز پڑھائی اور شفق غائب ہونے کے وقت مجھے عشاء کی نماز پڑھائی اور جس وقت روزہ دار کے لئے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے (یعنی صبح صادق کے بعد) تو مجھے فجر کی نماز پڑھائی۔ اور جب اگلا روز ہوا تو انہوں نے مجھے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سایہ ایک مثل ( کے قریب ہوگیا اور مجھے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو جاتا ہے اور مجھے مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ روزہ دار افطار کرتا ہے اور مجھے عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ تہائی رات ہوگئی تھی اور مجھے فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ خوب روشنی ہوگئی اور پھر (جبریل علیہ السلام نے) میری طرف متوجہ ہو کر کہا۔ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! یہ وقت آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے کے نبیوں (کی نماز) کا ہے اور نماز انہیں دو وقتوں کے درمیان ہے۔" (ابوداؤد ، جامع ترمذی )
تشریح
جگہ اور وقت کے اعتبار سے سایہ اصلی مختلف ہوتا ہے چنانچہ بعض جگہ تو سایہ زیادہ ہوتا ہے اور بعض جگہ کم ہوتا ہے اور بعض وقت سایہ اصلی ہوتا ہی نہیں جیسا کہ مکہ معظمہ میں انیسویں سرطان کو سایہ اصلی نہیں ہوتا ۔ اس لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے روز کی نماز طہر کی وقت کے بارے میں فرمایا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلے دن مجھے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ان دنوں میں مکہ معظمہ میں سایۂ اصلی جوتوں کے تسموں کی چوڑائی کے برابر تھا گویا وہ ظہر کا اوّل وقت تھا۔