غسل مسنون کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ۔ (رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَ زَادَ اَحْمَدُ وَ التِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ مَنْ حَمَلَہ، فَلْیَتَوَضَّأْ)
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جس آدمی نے مردے کو نہلایا ہو اسے خود بھی نہا لینا چاہئے۔" (ابن ماجۃ) اور مسند احمد بن حنبل، ترمذی اور ابوداؤد نے (اس حدیث میں) مزید نقل کیا ہے کہ" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ) جو آدمی جنازہ کو کندھا دینے کا ارادہ کرے اسے وضو کر لینا چاہئے " )
تشریح
اس حدیث سے دو چیزیں معلوم ہوئیں۔ اول تو یہ کہ جب کوئی آدمی کسی مردے کو نہلائے تو اسے چاہئے کہ غسل میت سے فراغت کے بعد خود بھی نہائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت اس کے اوپر چھینٹیں وغیرہ پڑ گئی ہوں لہٰذا پاکی اور صفائی کے لئے نہا لینا مناسب ہے۔ اکثر علماء کرام کے نزدیک غسل میت کے بعد نہانے کا یہ حکم استحباب کے درجے میں ہے کیونکہ ایک حدیث صحیح میں یہ ارشاد منقول ہے کہ " اگر تم مردے کو نہلاؤ تو تم پر غسل لازم نہیں ہے۔
اس حدیث سے دوسری چیز یہ معلوم ہوئی کہ جب کوئی آدمی جنازے کو اٹھانے کا ارادہ کرے تو اسے وضو کر لینا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی باوضو ہو کر جنازے کو اٹھائے گا تو جب نماز پڑھنے کی جگہ جنازہ رکھا جائے گا اور نماز جنازہ شروع ہوگی تو وہ فورًا نماز میں شریک ہو جائے گا یہ نہیں ہوگا کہ وہ تو جنازہ رکھ کر وضو کرنے چلا جائے اور ادھر نماز بھی ہو جائے۔ اس حکم کے بارے میں بھی متفقہ طور پر سب کی رائے یہی ہے کہ یہ حکم استحباب کے درجے میں ہے یعنی جنازہ اٹھانے سے پہلے وضو کر لینا مستحب ہے ضروری اور واجب نہیں ہے۔"