تیمم کا بیان
راوی:
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ خَرَ جْنَا فِیْ سَفَرِ فَاَ صَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّہ، فِیْ رَأْسِہٖ فَا حْتَلَمَ فَسَأْلَ اَصَحَابَہ، ھَلْ تَجِدُوْنَ لِی رُخْصَۃً فِی التَّیَمُّمِ قَالُوْ امَا نَجِدُلَکَ رُخْصَۃً وَاَنْتَ تَقْدِرُ عَلَی الْمَآءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ فَلَمَّا قَدِ مْنَا عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم أُخْبِرُ بِذٰلِکَ قَالَ قَتَلُوْہُ قَتَلَھُمُ اﷲُ اَلَّا سَالُوْا اِذَالَمْ یَعْلَمُوْا فَاِ نَّمَا شِفَاءُ الْعَیِّ السُّؤَالُ اِنَّمَا کَانَ یَکْفِیْہِ اَنْ یَّتَیَمََّمَ وَیُعَصِّبُ عَلٰی جُرْحِہٖ خِرْقَۃً ثُمَّ یَمْسَحَ عَلَیْھَا وَیَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِہٖ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ عَطَآءِ بْنِ اَبِیْ رَبَاحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ)
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " ہم سفر میں جارہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی کے پتھر لگا جس نے اس کے سر کو زخمی کر ڈالا (اتفاق سے) اسے نہانے کی حاجت بھی ہوگئی چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے نزدیک (اس صورت میں) میرے لئے تیمم کرنا جائز ہےَ انہوں نے کہا " ایسی صورت میں جب کہ تم پانی استعمال کر سکتے ہو، ہم تمہارے لئے تیمم کی کوئی وجہ نہیں پاتے۔" چنانچہ اس آدمی نے غسل کیا (جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ) اس کا انتقال ہوگیا۔ جب ہم (سفر سے واپس ہو کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انتہائی رنج اور تکلیف کے ساتھ) فرمایا " لوگوں نے اسے مار دیا ، اللہ بھی انہیں مارے " پھر فرمایا کہ" ان کو جو بات معلوم نہ تھی، اسے انہوں نے دریافت کیوں نہ کر لیا؟ (کیونکہ) نادانی کی بیماری کا علاج سوال ہے اور اسے تو یہی کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر ایک پٹی باندھ کر اس پر مسح کر لیتا اور پھر اپنا تمام بدن دھو لیتا ۔" (ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اس روایت کو عطاء ابن رباح سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے۔)
تشریح
بسا اوقات کم علمی اور کسی مسئلے سے عدم واقفیت پر اندو ہناک واقعہ کا سبب بن جایا کرتی ہے چنانچہ اس موقعہ پر یہی ہوا کہ جب اس زخمی آدمی نے اپنے عذر کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ آیا ایسے حال میں کہ جب میرے سر پر زخم ہے اور پانی اس زخم کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے تو ناپاکی دور کرنے کے لئے بجائے غسل کے میں تیمم کر سکتا ہوں؟ تو ساتھیوں نے مسئلے سے ناواقفیت اور اپنی کم علمی کی بنا پر یہ سمجھ کر آیت تیمم (فَلَمْ تَجِدُوْا مَا ءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ) 5۔ المائدہ : 6) کا مطلب یہ ہے کہ تیمم صرف اس شکل میں جائز ہوگا جب کہ پانی موجود نہ ہو اگر پانی موجود ہو تو تیمم جائز نہیں ہوگا ۔ اس آدمی سے کہہ دیا کہ تمہارے لئے تیمم جائز ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے؟ حالانکہ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ تیمم جائز نہ ہونے کی شکل یہ ہے کہ پانی موجود ہو اور ساتھ ساتھ اس کے استعمال پر قدرت نیز پانی کے استعمال سے کسی نقصان اور ضرر کا خدشہ بھی نہ ہو۔ اس بیچارے نے ان لوگوں کے علم و فہم پر اعتماد کیا اور اس حالت میں غسل کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانی نے زخم میں شدت پیدا کر دی اور شدت بھی ایسی کہ وہ اللہ کا بندہ اسی وجہ سے اللہ کو پیار ہوگیا۔
بہر حال یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایسے مواقع پر تیمم بھی کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام بدن کو دھونا بھی چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے مگر امام اعظم ابوحنیفہ کے رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں میں سے ایک ہی چیز کافی ہے۔
حنفیہ کی جانب سے شوافع کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور پھر قیاس کے خلاف بھی ہے کہ اس سے بدل اور مبدل منہ کا جمع لازم آیا ہے۔
الحاصل اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اگر کسی آدمی کو پانی کے استعمال کرنے کی وجہ سے تلف جان کا خوف ہو تو اس کے لئے تیمم کرنا جائز ہے یہ مسئلہ سب کے نزدیک متفق علیہ ہے۔
اور اگر کسی آدمی کو یہ ڈر ہو کہ پانی کے استعمال سے مرض بڑھ جائے گا یا صحت یابی میں تاخیر ہو جائے گی تو ایسی شکل میں بھی حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اسے تیمم کر کے نماز پڑھ لینی جائز ہے اور بعد میں نماز کی قضا ضروری نہیں ہے حضرات شوافع کے ہاں بھی تقریباً یہ مسلک ہے۔
اگر کسی آدمی کے کسی عضو میں زخم ہو یا پھوڑا ہو اور اس کی پٹی بندھی ہوئی ہو تو اس صورت میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پٹی اتارنے سے تلف جان کا خطرہ ہو تو اسے چاہئے کہ پٹی پر مسح کرے اور تیمم کرے مگر حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ جب کسی آدمی کے بدن کا کچھ حصہ زخمی اور کچھ حصہ اچھا ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ زخمی حصہ کتنا ہے اور اچھا حصہ کتنا ہے اگر زیادہ حصہ اچھا ہے تو اسے دھوئیں گے اور زخم پر مسح کریں اور اگر اکثر حصہ زخمی ہوگا تو تیمم کریں گے اور دھونا ساقط ہو جائے گا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جو حصہ اچھا ہو اسے دھویا جائے اور زخم کے لئے تیمم کیا جائے۔"