مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 483

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

راوی:

موزوں پر مسح کرنے کا جواز سنت اور آثار مشہورہ سے ثابت ہے بلکہ حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے اس کی تصریح کی ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں منقول حدیث متواتر ہے اور بعض محدثین نے اس حدیث کے راوی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی تعداد بھی نقل کی ہے چنانچہ اسی سے زیادہ صحابہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس حدیث کو روایت کرتے ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیںَ
علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ علمائے سلف میں سے کسی نے اس سے انکار کیا ہو اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر ٧٠ صحابہ کرام کو اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتے ہوئے پایا ہے حضرت امام کرخی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے کو قبول نہ کرے یعنی اسے جائز نہ سمجھے مجھے اس کے کافر ہو جانے کا خوف ہے کیونکہ اس کے جواز میں جو احادیث منقول ہیں وہ حد تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے کہ " میں موزوں پر مسح کرنے کا قائل اس وقت تک نہیں ہوا جب تک کہ اس کے جواز پر مشتمل احادیث آفتاب کی روشنی کی طرح مجھے نہ پہنچ گئیں۔" ان اقوال اور ارشادات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے، اس کے جواز میں کوئی شبہ کوئی شک اور کوئی کلام نہیں ہے۔
اب اس کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ موزوں پر مسح کرنا رخصت شریعت اسلامی کے مسائل و جزئیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کتنی آسانیاں اور سہولتیں پیدا کی ہیں یہ حقیقت ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بے پناہ شفقت و محبت ہی ہے جس نے عالمگیر اور سب سے سچے مذہب کو انسان کی عین فطرت و مزاج بنا دیا ہے قدم قدم پر ایسے مسائل سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جس میں اسلام اور شارع اسلام نے امت کو بہت زیادہ آسانیاں دی ہیں جن کے بغیر یقینا مسلمان مشکلات اور تکالیف میں مبتلا ہو جاتے کیونکہ سخت موقعوں پر مثلاً سردی کے موسم میں وضو کرنے کے وقت سب سے زیادہ تکلیف پاؤں کو دھونے ہی میں ہوتی ہے لیکن شریعت نے اس سختی اور تکلیف کے پیش نظر موزوں پر مسح کو جائز قرار دے کر امت پر ایک عظیم احسان کیا ہے۔)
یعنی آسانی ہے اور پاؤں کو دھونا عزیمت یعنی اولیٰ ہے ہدایہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے پر اعتقاد نہ رکھے وہ بدعتی ہے لیکن جو آدمی اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتا ہے مگر عزیمت یعنی اولیٰ ہونے پر عمل کرنے کی وجہ سے موزوں پر مسح نہیں کرتا تو اسے ثواب سے نوازا جاتا ہے۔
مواہب لدنیہ میں منقول ہے کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا موزوں پر مسح کرنا افضل ہے یا اسے اتار کر پاؤں کو دھونا افضل ہے؟ چنانچہ بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنا ہی افضل ہے کیونکہ اس سے اہل بدعت یعنی روافض و خوارج کا رد ہوتا ہے جو اس مسئلہ میں طعن و تشنیع کرتے ہیں، حضرت امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مختار مسلک یہی ہے اور امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کرام یعنی حضرات شوافع کا مسلک یہ ہے کہ پاؤں کو دھونا افضل ہے کیونکہ اصل یہی ہے لیکن اس کے ساتھ شرط یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کو بالکل ترک نہ کیا جائے۔
صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں میں کوئی تکلف نہیں تھا، یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم موزہ پہنے ہوتے تھے تو پاؤں دھونے کے لئے انہیں اتارتے نہیں تھے اور اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تھے تو مسح کرنے کے لئے انہیں پہنتے نہ تھے، اس بارے میں علماء کرام کے ہاں اختلاف ہے مگر بہتر اور صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ میں سنت کے موافق ہی عمل کرے یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تعامل ذکر کیا گیا ہے اسی طرح تمام مسلمان بے تکلفی کے ساتھ اس پر عمل کریں۔

یہ حدیث شیئر کریں