ہلاک کر دینے والی باتوں سے بچو
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِجْتَنِبُواالسَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قَالُوْا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ بِاللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَکْلُ الرِّبٰو وَاَکْلُ مَالِ الْےَتِےْمِ وَالتَّوَلِّی ےَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لوگو) سات ہلاک کر دینے والی باتوں سے بچو، پوچھا گیا یا رسول اللہ ! وہ سات ہلاک کرنے والی باتیں کون سی ہیں؟ فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا۔ (٢) جادو کرنا۔ (٣) جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا۔ (٤) یتیم کا مال کھانا۔ (٥) جہاد کے دن دشمن کو پیٹھ دکھانا۔ (٦) پاکدامن ایمان والی اور بے خبر عورتوں کو زنا کی تہمت لگانا۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اسلامی اعتقادت و نظریات اور بد یہی مسلمات کو دل سے ماننا، زبان سے اقرار کرنا اور عائد شدہ فرائض پر عمل کرنا ایمان ہے اور ان پر بدیہی مسلمات میں سے کسی ایک بات کا انکار کر دیا جائے خواہ بقیہ سب کا اقرار موجود ہے تو بھی کفر عائد ہو جاتا ہے پھر علماء کی تصریح ہے کہ کفر صرف قول ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ بعض افعال بھی موجب کفر ہوسکتے ہیں، چنانچہ فقہاء ایسے افعال پر بھی کفر کا حکم لگا دیتے ہیں جو قلبی و اعتقادی کفر کے صحیح ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔
یوں تو کفر کی ہر قسم انسانیت کے دامن پر سب سے بد نما داغ ہے لیکن اس کی جو قسم سب سے بدتر ہے وہ شرک ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات، اس کی عبادات اور اس کی حدود عظمت میں کسی کو شریک بنا لینا نہ صرف اعتقادی حیثیت سے ایمان و اسلام سے صریح بیزاری کا اظہار ہے، بلکہ فطرت پر ایک بہت بڑا ظلم اور عقل و دانش سے سب سے بڑی بغاوت بھی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کر کے اس کی فطرت کو کفر و شرک کی ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف رکھا ہے، اب اگر انسان اپنی فطرت کو شرک کی نجاست سے ملوث کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی فطرت اور اپنے خمیر کی صداقت آمیز آواز کا گلا گھونٹ کر مذہب و انسانیت دونوں حیثیت سے تباہی و بربادی کے غار میں گرتا ہے۔
اس لئے پروردگار عالم کا اٹل فیصلہ ہے کہ اس کی بارگاہ میں ہر کوتاہی و لغزش قابل معافی ہو سکتی ہے ۔ مگر شرک کا جرم ہرگز معافی نہیں ہوگا جس کی سخت سزا مشرک کو بھگتنی ہوگی۔ اور اللہ تعالیٰ کی پاک جنت میں اس کے لئے کوئی جگہ نہ ہوگی۔ ارشاد ربانی ہے :
اِنَّ ا لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرِکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ۔ (القرآن الحکیم، النساء ١١٦)
" بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے وہاں اس کے سوا اور جس گناہ کو چاہے گا بخش دے گا۔"
چونکہ شرک انسانی فطرت سے سعادت و نیک بختی کا تخم جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی کی تمام استعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے نیز خود قرآن کی نظر میں شرک اللہ تعالیٰ پر سب سے بڑا افتراء اور سب سے بڑے کر بے دلیل اور خلاف ضمیربات اور نفس انسان کے لئے ابدی موت ہے اس لئے حدیث میں جن ہلاکت خیز باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں شرک کا جرم سر فہرست ہے۔
شرک کی تعریف اور اقسام
اس موقعہ پر مناسب ہے کہ شرک کی تعریف اور اس کی اقسام کی کچھ تفصیل بیان کر دی جائے ، شرح عقائد میں ہے کہ اصطلاح شریعت میں شرک، اسے فرماتے ہیں کہ خدائی اختیارات میں غیر اللہ کو شریک ٹھہرائے جیسا کہ مجوسی اہرمن ویزداں کو مانتے ہیں یا اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو بھی پرستش وعبادت کے لائق جانے جیسا کہ بت پرست عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ شرک کفر کی ایک قسم ہے اور اسی لئے شریعت میں شرک کفر کے معنی میں بھی آتا ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ عبدالحق نے اپنے ترجمہ مشکوٰۃ میں شرح عقائد کی بیان کردہ شرک کی ان دونوں قسموں کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں شرک سے مراد کفر ہے، خیالی میں بھی اس کی تصریح ہے اور مولانا عصمۃ اللہ سے بھی یہی منقول ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ شریعت کی اصطلاح میں " شرک" اسے فرماتے ہیں کہ جو صفات خاص باری تعالیٰ عزاسمہ کے ساتھ مختص ہیں ان کو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے میں بھی ثابت کرے۔ جیسے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو بھی عالم الغیب جانے۔ یا جس طرح دنیا کی ہر چیز پر اللہ کو قادر مانتا ہے کسی دوسرے کو بھی قادر جانے، یا جیسے اللہ تعالیٰ کو اپنے ارادہ کے ساتھ دنیا کی تمام چیزوں پر متصرف جانتا ہے، ایسے ہی کسی دوسرے کو بھی متصرف جانے۔ مثلاً کسی کے بارہ میں یہ عقیدہ رکھے کہ فلاں نے نظر کرم کے ساتھ مجھ سے برتاؤ کیا اس لئے مجھ کو مال و زر کی وسعت اور خوشی حاصل ہو گئی یا فلاں نے مجھ کو پھٹکار دیا تھا تو اس کے سبب میں بیمار ہو گیا یا میرا مقدر پھوٹ گیا ، وغیرہ وغیرہ۔
اللہ کی ذات اور صفات اور خدائی اختیارات میں شرک کے علاوہ تفسیر عزیزی میں شرک کی اور جو اقسام ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں ایک تو یہی ہے کہ عبادت میں کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرایا جائے، یا کسی کا نام تقرب و فضیلت کے طریقہ پر اللہ کے نام کی طرح لیا جائے اور اس کو اللہ کا ہمسر قرار دیا جائے۔ مثلاً کسی کو اٹھتے بیٹھتے و مصائب و مشکلات میں اس کا نام لے کر اسے یاد کرے ایسے ہی کسی کا نام بجائے عبداللہ یا عبدالرحمن کے بندہ فلاں یا عبد فلاں رکھا جائے اس کو " شرک فی التسمیہ" فرماتے ہیں یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے اور اس کی نذر مانی جائے، یا بلاوجہ شر کے دفعیہ اور حصول منفعت کے لئے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو پکارا جائے اور ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ یا علم و قدرت میں اللہ کے نام کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا جائے جیسے کوئی کہے ماشاء اللہ و شئت یعنی جو اللہ چاہے اور تم چاہو وہی ہوگا۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ کسی نا واقف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسی طرح کے الفاظ کہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت فروختہ ہوئے اور فرمایا کہ تم نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرا دیا اور فرمایا کہ اس طرح کہو :
مَا شَآءَ ا ُوَحدَہُ۔
" یعنی جو صرف اللہ چاہے گا وہی ہوگا۔"
بعض کبیرہ گناہوں کو بھی شرک کہا گیا ہے، جیسے حدیث میں وارد ہے کہ جس آدمی نے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم کھائی اور اس نے یقینا شرک کیا، یا کہا جاتا ہے کہ بد شونی لینا شرک ہے یا منقول کہ ریاکاری شرک ہے، یا اسی طرح منقول ہے کہ جو عورت اپنے خاوند کی محبت کے لئے ٹوٹکہ کرے شرک ہے گویا یہ گناہ اپنے مہلک اثرات کی بنا پر شرک کی طرح ہیں اس لئے ان سے اجتناب بھی اتنا ہی ضروری ہے، جتنا شرک سے۔
اسی طرح وہ افعال جو اگرچہ شرک حقیقی یعنی کفر کے دائرے میں تو نہ آتے ہوں لیکن مشرکین اور بت پرستوں کے افعال و اعمال کے مشابہ اور ان کے ہم مثل سمجھے جاتے ہیں تو ان سے بھی شرک ہی کی طرح پرہیز ضروری ہے، جیسے علماء اور بادشاہ کے آگے جبین سائی کرنا یا ان کے سامنے آکر زمین کو چو سنایا ان کو سجدہ تعظیم کرنا۔ چونکہ یہ افعال حرام اور گناہ کبیرہ ہیں اس لئے ان کا ارتقاب کرنے والا بھی گناہ گار اور مستوجب عذاب ہوگا، اور جو لوگ اس طرح کے افعال سے خوش ہوں گے اور قدرت کے باوجود ان افعال کے ارتکاب کو روکنے کی کوشش نہیں کریں گے وہ بھی گناہ گار ہوں گے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر علماء یا بادشاہ پیروں کے آگے جبین سائی کرنا اور زمین کو بوسہ دنیا عبادت و تعظیم کی نیت سے ہوگا تو اس کو صریحا کفر کہا جائے گا اگر عبادت و تعظیم کی نیت سے نہیں بلکہ محض اظہار ادب کے لئے ہوگا تو اس پر کفر کا اطلاق نہیں ہوگا لیکن گناہ کبیرہ ضرور کہلائے گا۔
اس حدیث میں دوسرا ہلاکت خیز فعل سحر بتایا گیا ہے۔ سحر کے بارہ میں علماء فرماتے ہیں کہ جس طرح سحر اور جادو کرنا حرام اور ہلاکت خیز چیز ہے اسی طرح جادو سیکھنا اور سحر کا علم حاصل کرنا بھی حرام ہے، جو آخرت میں ہلاکت کا موجب بنے گا ، شرح عقائد کے حاشیہ " خیالی" میں لکھا ہے کہ سحر کرنا کفر ہے، اور صحابہ وغیرہ کی ایک جماعت تو اس پر متفق ہے کہ ساحر کو فوراً مار ڈالنا چاہیے۔ جب کہ بعض کی رائے یہ ہے کہ اگر ساحر اس طرح کا ہو جس سے کفر لازم آتا ہو اور ساحر اس سے توبہ نہ کرے تو اس کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے۔ اسی طرح نجوم، کہانت رمل اور شعبدہ بازی کی تعلیم حاسل کرنا، ان چیزوں کو اختیار کرنا اور ان سے روزی اور پیسہ کمانا اور نجومی و کاہن و غیرہ سے سوالات کرنا اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتقاد رکھنا بھی حرام ہے۔
حدیث میں دشمن کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار کرنے کے مذموم فعل کو بھی ہلاکت کا موجب بتایا گیا ہے اس لئے کہ جس آدمی نے اتنی بزدلی اور پست ہمتی دکھائی کہ عین اس موقع پر جب کہ اس کی ایمانی شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ، دشمن کو پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑا ہو وہ دراصل اپنی اس مذموم حرکت کے ذریعہ اہل اسلام کی رسوائی کا سبب بنا لہٰذا اس کو آخرت کے عذاب اور ہلاکت کا مستوجب گردانا جائے گا۔ اس سلسلہ میں جہاں تک تفصیلی مسئلہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو کافر ہوں تو اس کو ان کے مقابلے سے راہ فرار اختیار کرنا گناہ کبیرہ ہے ہاں اگر مقابلہ پر دشمن دو سے زیادہ کی تعداد میں ہوں تو پھر بھاگنا حرام نہیں ہے بلکہ جائز ہے مگر اس میں اولیٰ اور بہتر یہی ہے کہ وہ اس صورت میں بھی پیٹھ نہ دکھلائے بلکہ مقابلہ کرے خواہ جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔