مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 470

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا وَطِئَ اَحَدُ کُمْ بِنَعْلِہِ الْاَ ذٰی فَاِنَّ التُّرَابَ لَہ، طَھُوْرٌ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤوَ لِا بْنِ مَاجَۃَ مَعْنَاہُ)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی اپنے جوتوں کے ساتھ گندگی پر چلے تو مٹی اس کو پاک کرنے والی ہے (ابوداؤد اور ابن ماجہ نے بھی اسی کے ہم معنی روایت نقل کی ہے

تشریح
صورت مسئلہ یہ ہے کہ مثلا ایک آدمی جوتے پہنے ہوئے چل رہا ہے اتفاق سے کسی جگہ گندگی پڑی ہوئی تھی وہ اس کے جوتوں پر لگ گئی اب پھر وہ جب پاک اور صاف زمین پر چلے گا تو مٹی سے رگڑ کھانے کی وجہ سے اس کا جوتا پاک ہو جائے گا اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے ایک شاگرد حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں گندگی سے مراد جو جسم والی اور خشک ہو یعنی اگر کسی راہ چلتے کے جوتے یا موزے میں ایسی گندگی لگ جائے جو جسم والی ہو اور خشک ہو تو پاک زمین پر رگڑ دینے سے وہ جوتا یا موزہ پاک ہو جائے گا اور اگر گندگی خشک نہ ہو تو پھر رگڑ نے سے گندگی زائل نہیں ہوگی۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک دوسرے شاگرد رشید حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ یہاں حدیث کی مراد عام ہے یعنی گندگی خواہ خشک ہو یا تر زمین پر رگڑنے سے پاک ہو جائے گی مگر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ پہلا قول ہے ان کا جدید مسلک یہ ہے کہ اس گندگی کو ہر حال میں پانی سے دھونا چاہئے زمین پر رگڑنے سے پاک نہیں ہوگی۔
فقہ حنفی میں فتویٰ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے قول پر ہے جو کہ جوتے یا موزے پر اگر تن دار نجاست لگ جائے خواہ وہ خشک ہو یا تر ہو تو زمین پر خوب اچھی طرح رگڑ دینے سے موزہ یا جوتا پاک ہو جائے گا۔
یہ سمجھ لیجئے کہ اس مسئلے میں علماء کرام کا یہ اختلاف تن دار نجاست جیسے گوبر وغیرہ ہی کے بارے میں ہے کیونکہ غیر تن دار نجاست مثلاً پیشاب و شراب کے بارے میں سب کا متفقہ طور پر یہ مسلک ہے کہ اسے دھونا ہی واجب ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں