مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 460

نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

راوی:

وَعَنْہُ قَالَ قَامَ اَعْرَابِیٌّ فَبَالَ فِی الْمَسْجِدِفَتَنَاوَلَہُ النَّاسُ فَقَالَ لَھُمُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم دَعُوْہُ وَھَرِےْقُوْا عَلٰی بَوْلِہٖ سَجْلًا مِّنْ مَّآءٍ اَوْ ذَنُوْبًا مِّنْ مَّآءٍ فَاِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُےَسِّرِےْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِےْنَ ۔ (صحیح البخاری)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن ) ایک دیہاتی نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر دیا (یہ دیکھ کر) لوگ اس کے پیچھے پڑنے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اسے چھوڑ دو اور ایک ڈول میں پانی اس کے پیشاب پر بہادو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگی کرنے والے نہیں۔)" (الصحیح البخاری )

تشریح
راوی کو شک ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجلا من ماء فرمایا ہے یا ذنوبا من ماء کے الفاظ فرمائے ہیں اسی لئے انہوں نے دونوں نقل کر دئیے ہیں " سجل" اور " ذنوب" دونوں کے معنی ڈول ہی کے ہیں لیکن ان کے استعمال میں تھوڑا سا فرق ہے وہ یہ کہ سجل تو اس ڈول کو کہتے ہیں جس میں پانی ہو خواہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ اور ذنوب پانی سے بھرے ہوئے ڈول کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی شفقت و رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و عفو کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر کتنے مہربان اور شفیق تھے چنانچہ نہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس دیہاتی کی غلطی سے در گزر فرماتے ہوئے اس کو کچھ نہ کہا بلکہ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اسے برا بھلا کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ تم جس پیغمبر کے رفیق و ساتھی اور جس امت کے فرد ہو اس کی مابہ الامتیاز خصوصیت ہی یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو سختی و پریشانی میں مبتلا نہ کیا جائے اور نہ کسی کی غلطی پر جو عدم و اقفیت کی بناء پر سرزد ہو جائے برا بھلا کہا جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے امت کے لئے یہ تعلیم مقصود ہے کہ لوگوں کو کسی دشواری اور سختی میں نہ ڈالا جائے اور نہ ایسا کوئی معاملہ کیا جائے جس سے دوسرا آدمی بد دل ہو جائے اور اپنے آپ کو کسی گھٹن اور تنگی میں محسوس کرے۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر زمین پر کوئی نجاست و گندگی پڑی ہوئی ہو تو اس نجاست پر زیادہ مقدار میں پانی ڈالنے یا نجاست کو بہا دینے سے زمین پاک ہو جاتی ہے۔
یہ حدیث اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نجاست کا دھووں اگر متغیر نہ ہو تو پاک ہے۔ اگر وہ کسی دوسرے کپڑے، بدن، اور زمین پر یا کسی بوریے وغیرہ سے چھن کر زمین پر گرے تو یہ چیزیں ناپاک نہیں ہوں گی اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے مگر مختار اور معتمد قول یہ ہے کہ دھوون اگر نجاست کی جگہ اس وقت گرے جب وہ نجاست کے زائل ہونے کی وجہ سے پاک ہو چکی ہو تو اس شکل میں وہ پاک ہوگا اور وہ دھوون جو نجاست کی جگہ سے پاک ہونے سے پہلے جدا ہوا وہ ناپاک ہوگا اور اگر دھوون متغیر ہو جائے بایں طور کہ پانی کے رنگ، مزے اور بو میں تبدیلی آجائے تو وہ بالاتفاق ناپاک ہے۔
علامہ طیبی شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ اگر زمین کسی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہو جائے تو وہ خشک ہونے سے پاک نہیں ہوتی یعنی وہ جگہ پانی بہا کر نجاست کو زائل کر دینے ہی سے پاک ہوگی اور اس جگہ کو کھرچ ڈالنا یا وہاں سے مٹی کھود کر اٹھا لینا ضروری نہیں ہے۔
مگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک خشک ہونے سے زمین پاک ہو جاتی ہے اور اگر کوئی چاہے کہ خشک ہونے سے پہلے ہی زمین پاک ہو جائے تو وہاں سے مٹی کھرچ کر اٹھا دی جائے تاکہ وہ حصہ پاک ہو جائے۔
علماء حنفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے مسجد کی زمین کے اس حصہ کے جہاں خشک ہو جانے سے پہلی جگہ جہاں دیہاتی نے پیشاب کر دیا تھا نماز پڑھ لی گی جس کی بناء پر حکم لگا دیا گیا کہ ناپاک زمین بغیر پانی بہائے ہوئے پاک نہیں ہوتی، جہاں تک سوال پانی ڈالنے کا ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت نجاست کی جگہ پانی بہانے کا حکم اس لئے دیا ہوگا کہ پیشاب کی نجاست میں کچھ کمی ہو جائے اور پیشاب کا رنگ اور اس کی بدبو پانی بہانے کی وجہ سے ختم ہو جائے، مگر زمین کا وہ حصہ خشک ہونے کے بعد ہی پاک ہوا ہوگا۔ اس سلسلے میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے مشکوۃ کی شرح مرقات میں اور بہت سی دلیلیں لکھی ہیں جو وہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں