پانی کے احکام کا بیان
راوی:
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَتَوَ ضَّاُ بِمَا اَفْضَلَتِ الْحُمُرُ قَالَ نَعَمْ وَبِمَا اَفْضَلَتِ السِّبَاعُ کُلُّھَا۔ (رواہ فی شرح السنۃ)
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم اس پانی سے وضو کر سکتے ہیں جس کو گدھوں نے استعمال کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " ہاں! (اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے) اور اس پانی سے بھی (وضو کرنا جائز ہے) جس کو درندوں نے استعمال کیا ہو۔" (شرح السنۃ)
تشریح
اس مسئلے میں کہ گدھوں یا خچروں کا استعمال کردہ پانی پاک ہے یا نہیں؟ کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ اس مسئلے میں جو احادیث منقول ہیں ان میں تعارض ہے چنانچہ بعض احادیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا استعمال کردہ حرام ہے اور بعض احادیث سے ان کی اباحت کا پتہ چلتا ہے، جیسا کہ مرقات میں دونوں قسم کی احادیث جمع کی گئی ہیں لہٰذا ان کے ظاہری تعارض کو دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور پھر احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں بھی اس مسئلے کے بارے میں اختلاف منقول ہے چنانچہ حضرت ابن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گدھوں اور خچروں کے مستعمل کو ناپاک کہتے تھے مگر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس کے پاک ہونے کے قائل تھے۔
اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ درندوں کا مستعمل پاک ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک درندوں کا استعمال کیا ہوا ناپاک ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب کوئی درندہ پانی وغیرہ کو استعمال کرے گا تو اس میں اس کا لعاب یقینًا پڑے گا اور لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے اور ظاہر کہ درندوں کا گوشت ناپاک ہوتا ہے اس لئے اس کے استعمال کئے ہوئے کو بھی ناپاک کہا جائے گا۔
اب جہاں تک ان حدیثوں کا تعلق ہے جن سے درندوں کے مستعمل کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے، اس کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان احادیث کی صحت ہی میں کلام کیا جاتا ہے کہ آیا یہ احادیث صحیح بھی ہیں یا نہیں؟ اگر ان احادیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ ان احادیث سے درندوں کے مستعمل پانی کے پاک ہونے کا ثبوت ملتا ہے اس سے وہ پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع ہوتا ہے، چنانچہ اس کی تصریح آگے آنے والی احادیث سے بھی جو حضرت یحییٰ اور حضرت ابوسعید رحمہما اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہیں، ہوتی ہے جن میں وضاحت کے ساتھ ثابت ہو رہا ہے کہ اگر درندے نے ایسے پانی کو استعمال کیا جو بہت زیادہ مثلاً کسی بڑے تالاب و غیرہ میں پانی ہے تو پاک ہوگا اگر پانی تھوڑا ہوگا تو وہ درندوں کے استعمال کر دینے سے ناپاک ہو جائے گا۔
پھر اس بات کو ذہن نشین کر لیجئے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان احادیث میں درندے اور پانی علی العموم مراد ہیں کہ پانی خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ وہ درندوں کے استعمال کرنے سے ناپاک نہیں ہوتا تو کیا اس شکل میں یہ لازم نہیں آتا کہ کتوں کے جھوٹے کو بھی پاک کہا جائے حالانکہ کوئی بھی کتے کہ جھوٹے کو پاک نہیں کہتا " لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جن احادیث سے درندوں کے جھوٹے پانی کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے اس سے وہی پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع رہتا ہے اور جو بہت زیادہ ہوتا ہے۔"
اس موقع پر برسبیل تذکرہ ایک مسئلہ بھی سن لیجئے۔ یہ تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ کتے کا لعاب وغیرہ بھی ناپاک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کتوں کا لعاب وغیرہ کپڑے یا بدن کے کسی حصے پر لگ جائے تو اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہوتا ہے مگر اس سلسلے میں اتنی بات یاد رکھئے کہ اگر کسی کتے نے کسی آدمی کے بدن کے کسی حصے کو منہ سے پکڑ لیا یا کسی کپڑے کو منہ میں دبا لیا تو اس کا مسئلہ یہ ہے کہ کتے نے اگر غصے کی حالت میں پکڑا یا دبا ہے تو وہ ناپاک نہیں ہوگا۔ اور اگر غصے کی حالت میں نہیں بلکہ بطور کھیل کود کے اس نے پکڑا اور دبایا ہے تو وہ ناپاک ہو جائے گا اس لئے بدن کے اس حصے کو اور کپڑے کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہوگا۔ اس فرق کی وجہ علماء یہ لکھتے ہیں کہ جب کتا کسی چیز کو غصے کی حالت میں پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے پکڑتا ہے اور اس کے دانت میں کوئی رطوبت نہیں ہوتی اس لئے اس چیز پر ناپاکی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور جب کسی چیز کو کھیل کے طریقہ پر پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے نہیں پکڑتا بلکہ ہونٹوں سے پکڑتا ہے اور ہونٹ چونکہ لعاب وغیرہ سے تر ہوتے ہیں اس لئے اس کی ناپاکی اس چیز کو بھی ناپاک کر دیتی ہے۔