پانی کے احکام کا بیان
راوی:
وَعَنْ کَبَشْۃَ بِنْتِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ وَ کَانَتْ تَحْتَ ابْنِ اَبِیْ قَتَادَۃَ اَنَّ اَبَا قَتَادَۃَ دَخَلَ عَلَیْھَا فَسَکَبَتْ لَہ، وَضُوْئًا فَجَائَتْ ھِرَّۃٌ تَشْرَبُ مِنْہُ فَاَصْغٰی لَھَا الْاِ نَآءَ حَتّٰی شَرِبَتْ قَالَتْ کَبْشَۃُ فَرَاٰنِیْ اَنْظُرُ اِلَیْہِ فَقَالَ اَتَعْجَبِیْنَ یَا ابْنَۃَ اَخِیْ قَالَتْ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمقَالَ اِنَّھَا لَیْسَتْ بِنَجْسٍ اِنَّھَا مِنَّ الطَّوَّافِیْنِ عَلَیْکُمْ اَوِ الطَّوَّافَاتِ۔ (رواہ مالک و مسند احمد بن حنبل والترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجۃ و الدارمی)
" حضرت کبشہ بنت کعب بن مالک سے جو حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کی بیوی تھیں مروی ہے کہ " (ایک روز ان کے سسر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس آئے (کبشہ کہتی ہیں کہ) میں نے ان کے وضو کے لئے (ایک برتن میں) پانی رکھ دیا، ایک بلی آکر اس میں سے پانی پینے لگی، حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برتن کو اس کی طرف جھکا دیا (تاکہ وہ آسانی سے پانی پی لے ) چنانچہ بلی نے پانی پی لیا " کبشہ کہتی ہیں کہ جب حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھا کہ میں تعجب سے ان کی طرف دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا " میری بھتیجی " کیا تمہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے ؟ میں نے کہا " جی ہاں۔" حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بلیاں ناپاک نہیں ہیں، کیونکہ یہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہیں" یا یہ فرمایا " آنے جانے والیوں میں سے ہیں۔" (موطا امام مالک، مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبشہ کو بھیتجی کہا ہے حالانکہ وہ ان کی بھیتجی نہیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں عام طور پر مرد مخاطب کو اگر وہ چھوٹا ہوتا ہے بھتیجا یا چچا کا بیٹا اور عورت مخاطب کو بھتیجی کہہ کر پکارتے ہیں چاہے حقیقت میں ان کا یہ رشتہ نہ ہو کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، اس لئے وہ اسلامی اخوت کے رشتے کے پیش نظر اس کی اولاد کو بھیتجا یا بھیتجی کہتے ہیں۔ روایت میں " طوافین" اور طوافات" دونوں لفظ استعمال فرمائے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بلی اگر نر ہے تو اس کی مناسبت سے " طوافین" کا لفظ ہوگا اور اگر بلی مادہ ہے تو اس کی مناسبت سے " طوافات" کا لفظ ہوگا۔
یہ دونوں لفظ یہاں " خادم" کے معنی میں استعمال فرمائے ہیں اس کا مطب یہ ہے کہ " بلیاں تمہاری خادم ہیں" ان کو خادم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی انسانوں کی مختلف طریقوں سے خدمت کرتی ہیں اور ان کے آرام و راحت کی بعض چیزوں میں بڑی معاون ہوتی ہیں مثلاً نقصان دہ جانوروں جیسے چوہے وغیرہ کو یہ مارتی ہیں۔ یا ان کو خادم اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ جیسے خادموں کی خبر گیری میں ثواب ملتا ہے اسی طرح بلیوں کی خبر گیری میں بھی ثواب ہوتا ہے اور جس طرح گھروں میں خادم پھرتے رہتے ہیں اس طرح بلیاں بھی گھروں میں پھرتی رہتی ہیں۔
بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلیاں تمہارے پاس ہر وقت خادموں کی طرح رہتی ہیں اور گھر کے ہر حصے میں پھرا کرتی ہیں اگر ان کے استعمال کئے کو ناپاک قرار دے دیا جائے تو تم سب بڑی دشواریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ اس لئے یہ حکم کیا جاتا ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ پاک ہے۔ گویا یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ بلی کا استعمال کردہ پاک ہے چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ ناپاک نہیں ہے بلکہ پاک ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بلی کا استعمال کردہ مکروہ تنزیہی ہے یعنی اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی نہ مل سکے تو اس سے وضو کرنا جائز ہے۔ اس کی موجودگی میں تیمم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو اور اس کے باوجود اسی جھوٹے پانی سے وضو کیا جائے گا تو وضو ہو جائے گا لیکن مکروہ ہوگا۔
امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس شکل میں اسے مکروہ بھی اس لئے فرماتے ہیں کہ ایک دوسری حدیث میں بلی کو درندہ کہا گیا ہے اور درندہ کے بارے میں بتایا گیا کہ ناپاک ہوتا ہے لیکن یہ حدیث چونکہ اس کے بالکل برعکس ہے اس لئے ان دونوں حدیثوں پر نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا حکم نافذ کیا جانا چاہئے جو دونوں حدیثوں کے مفہوم کے مطابق ہو لہٰذا اب یہی کیا جائے گا کہ جس حدیث میں بلی کو درندہ کہہ کر اس کی نجاست کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے مگر اس حدیث نے بلی کی نجاست کے حکم کو کراہت میں بدل دیا ہے لہٰذا اس کے استعمال کئے ہوئے کو ناپاک تو نہیں کہیں گے البتہ مکروہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔