پانی کے احکام کا بیان
راوی:
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا نَرْ کَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیْلَ مِنَ الْمَآءِ فَاِنْ تَوضَّاْنَا بِہٖ عَطِشْنَا اَفَنَتَوَضَّأُ بِمَآءِ الْبَحْرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاوُہ، وَالْحِلُّ مَیْتَتُہ،۔( رواہ مالک و الجامع ترمذی و ابوداؤد و نسائی و ابن ماجۃ و الدارمی)
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ہم (کھارے) دریا میں کشتی کے ذریعہ) سفر کرتے ہیں اور (میٹھا ) پانی اپنے ہمراہ تھوڑا سا لے جاتے ہیں اس لئے اگر ہم اس پانی سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں! تو کیا ہم دریا کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں (یا تیمم کر لیا کریں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دریا کا وہ پانی پاک کرنے والا ہے اس کا مردار حلال ہے۔" (مالک ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
" میتہ' اس مردار جانور کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح کئے ہوئے اپنے آپ مر جائے چنانچہ اس حدیث میں میتۃ (سے مراد مچھلی ہے کیونکہ اسے ذبح نہیں کرتے اس کا شکار کرنا اور اسے پانی سے نکالنا ہی اس کو ذبح کرنے کے مترادف ہے ۔ البتہ جو مچھلی پانی میں مر جائے وہ حنفیہ کے ہاں حلال نہیں ہے۔
دریائی جانوروں میں مچھلی تمام علماء کرام کے ہاں متفقہ طور پر حلال ہے، دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔