پانی کے احکام کا بیان
راوی:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَآءِ یَکُوْنُ فِی الْفَلاۃِ مِنَ الْاَرْضِ وَمَا یَنُوْبُہ، مِنَ الدَّوَابِ وَ السِّبَاعِ فَقَالَ اِذَا کَانَ الْمَآءُ قُلَّتَیْنِ لَمْ یَحْمِلِ الخَبَثَ۔ (رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَ التِّرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُّ وَالدَّارِمِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَفِی اُخْرٰے لِاَبِی دَاؤدَ فَاِنَّہُ لَا یَنْجَسُ)
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانی کا حکم پوچھا گیا جو جنگل میں زمین پر جمع ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر چو پائے درندے اس پر آتے جاتے رہتے ہیں (یعنی جانور وغیرہ اس پانی پر آکر اسے پیتے ہیں اور اس میں پیشاب وغیرہ بھی کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر پانی دو قلوں کے برابر ہو تو وہ ناپاکی کو قبول نہیں کرتا (یعنی نجاست وغیرہ پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا)۔" (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، داری، سنن ابن ماجہ اور سنن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ " وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ " )
تشریح
قلہ بڑے مٹکے کو کہتے ہیں جس میں اڑھائی مشک پانی آتا ہے " قلتین" یعنی دو مٹکوں میں پانچ مشک پانی سماتا ہے دو مشکوں کے پانی کا وزن علماء کرام نے سوا چھ من لکھا ہے اس حدیث کے پیش نظر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی دو مٹکوں کے برابر ہو اور اس میں نجاست و غلاظت گر جائے تو جب تک پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
لیکن جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام کا بہت زیادہ اختلاف ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح بھی ہے یا نہیں؟ چنانچہ سفر السعادہ کے مصنف جو ایک جلیل القدر محدث ہیں لکھتے ہیں کہ " علماء کرام کی ایک جماعت کا قول تو یہ ہے کہ حدیث صحیح ہے مگر ایک دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔"
علی بن مدینی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو جلیل القدر علماء اور ائمہ حدیث کے امام اور حضرت عبداللہ بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاد ہیں لکھتا ہے کہ " یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ہے۔"
نیز علماء کرام لکھتے ہیں کہ " یہ حدیث اجماع صحابہ کے برخلاف ہے کیونکہ ایک مرتبہ چاہ زمزم میں ایک حبشی گر پڑا تو حضرت بن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ حکم دیا کہ کنویں کا تمام پانی نکال دیا جائے اور یہ واقعہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے ہوا اور کسی نے بھی اس حکم کی مخالفت نہیں کی۔"
پھر اس کے علاوہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ " اس مسئلہ میں پانی کی حد اور مقدار متعین کرنے کے سلسلے میں نہ تو حنفیہ کو اور نہ ہی شوافع کو ایسی کوئی صحیح حدیث ہاتھ لگی ہے جس سے معلوم ہو کہ نجاست پڑنے سے کتنی مقدار کا پانی ناپاک ہو جاتا ہے اور کتنی مقدار کا ناپاک نہیں ہوتا۔"
امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ جو فن حدیث کے ایک جلیل القدر امام اور حنفی مسلک کے تھے فرماتے ہیں کہ " حدیث قلتین (یعنی یہ حدیث) اگرچہ صحیح ہے لیکن اس پر ہمارے عمل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں پانی کی مقدار دو قلے بتائی گئی ہے اور قلے کے کئی معنی آتے ہیں، چنانچہ قلہ مٹکے کو بھی کہتے ہیں اور مشک کو بھی، نیز پہاڑ کی چوٹی بھی قلہ کہلاتی ہے، لہٰذا جب یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں حدیث میں قلہ سے کیا مراد ہے تو اس پر عمل کیسے ہو سکتا ہے؟
بہر حال اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ جو علماء صرف حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کرتے ہیں ان کا مسلک تو یہ ہے کہ " نجاست وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ پانی کم ہو یا زیادہ ہو، جاری ہو یا ٹھہرا ہوا ہو، اور خواہ نجاست پڑنے سے پانی کا رنگ مزہ اور بو متغیرہ ہو یا نہ ہو" یہ حضرات دلیل میں اس کے بعد آنے والی حدیث (نمبر٥) کے یہ الفاظ پیش کرتے ہیں کہ الحدیث ( اِنَّ لْمَآءَ طُھُورٌّ لَا یُنَجِّسُہٌ شَیْی ءٌ (یعنی پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی) حالانکہ مطلقًا پانی نہیں ہے بلکہ زیادہ پانی ہے۔
ان کے علاوہ تمام علماء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی زیادہ ہوگا تو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہوگا اور اگر پانی کم ہے تو نجاست پڑنے سے ناپاک ہو جائے گا۔
اب اس کے بعد چاروں اماموں کے ہاں " زیادہ" اور " کم" کی مقدار میں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نجاست پڑنے سے جس پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو وہ ماء کثیر (زیادہ پانی ) کہلائے گا اور جو پانی متغیر ہو جائے وہ ماء قلیل (کم پانی) کے حکم میں ہوگا۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک اس حدیث کے پیش نظر یہ ہے جو پانی دو قلوں کے برابر ہوگا اسے ماءِ کیثر کہیں گے اور جو پانی دو قلوں کے برابر نہ ہوگا وہ " ماء قلیل" کہلائے گا۔
حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے ماننے والے یہ فرماتے ہیں کہ۔" اگر پانی اتنی مقدار میں ہو کہ اس کے ایک کنارے کو ہلانے سے دوسرا کنارہ نہ ہلے تو وہ " ماء کثیر ہے اور اگر دوسرا کنارہ ہلنے لگے تو وہ " ماء قلیل" ہے۔"
بعد کے بعض حنفی علماء نے " دہ در دہ" کو ماء کیثر کہا ہے یعنی اتنا بڑا حوص جو دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا ہو اور اتنا گہرا ہو کہ اگر چلو سے پانی اٹھائیں تو زمین نہ کھلے ایسے حوض کو دہ در دہ کہتے ہیں۔ چنانچہ ایسے حوض کے پانی میں جو " دہ در دہ" ہو ایسی نجاست پڑجائے جو پڑ جانے کے بعد دکھلائی نہ دیتی ہو جیسے پیشاب، خون ، شراب وغیرہ تو چاروں طرف وضو کرنا درست ہے جدھر سے چاہے وضو کر سکتا ہے، البتہ اگر اتنے بڑے حوض میں اتنی جناست پڑ جائے کہ پانی کا رنگ یا مزہ بدل جائے یا بد بو آنے لگے تو پانی ناپاک ہو جائے گا اور اگر حوض کی شکل یہ ہو کہ لمبا تو وہ بیس ہاتھ اور چوڑا پانچ ہاتھ ہو یا ایسے ہی لمبا پچیس ہاتھ ہو اور چوڑا چار ہاتھ ہو تو یہ دہ دردہ کی مثل ہی کہلائے گا۔