پانی کے احکام کا بیان
راوی:
عَنِ السَّآئِبِ بْنِ ےَزِےْدَص قَالَ ذَھَبَتْ بِیْ خَالَتِیْ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ ابْنَ اُخْتِیْ وَجِعٌ فَمَسَحَ رَاْسِیْ وَدَعَالِیْ بِالْبَرَکَۃِ ثُمَّ تَوَضَّاَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَّضُوْۤئِہٖ ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَھْرِہٖ فَنَظَرْتُ اِلٰی خَاتِمِ النُّبُوَّۃِ بَےْنَ کَتِفَےْہِ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَۃِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت سائب بن یزید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " میری خالہ مجھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (یہ) میرا بھانجا بیمار ہے۔" چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی پی لیا۔ اس کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑا ہو کر مہر نبوت کو دیکھنے لگا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان تھی اور دلہن کے پلنگ کی گھنڈی کی طرح (چمک رہی تھی۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
" وضو کے پانی" سے یا تو یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو فرمانے کے بعد جو پانی برتن میں باقی رہ گیا تھا حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے پی لیا یا اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے تو جو پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء وضو سے گرتا جاتا تھا حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حصول برکت و سعات کے خاطر اسے پیتے جاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت و رسالت کے منصب سے سرفراز فرما کر جب دنیا میں مبعوث کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی حقانیت و صداقت کی دلیل کے طور پر جہاں اور بہت سی نشانیاں اور معجزے دئیے وہیں ایک بڑی نشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان " مہر نبوت" بھی ثبت فرمائی چنانچہ حضرت سائب اسی مہر نبوت کی مقدار اور اس کی ہیت بیان فرما رہے ہیں کہ وہ چھپر کھٹ کی گھنڈی کی طرح تھی۔
اس نشانی کو " مہر نبوت" اس لئے کہا جاتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے انبیاء پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کتابیں نازل کی گئی تھیں ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور بعثت کی خبر دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ علامت بتائی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اس مہر نبوت کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہچانے گئے کہ آپ ہی وہی نبی آخر الزماں ہیں جن کی بعثت کی خبر پہلے کتابوں میں دی گئی ہے چنانچہ یہ " مہر نبوت" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی علامت قرار دی گئی اس کے علاوہ علماء کرام نے اس کی وجہ تسمیہ اور بھی لکھی ہیں مگر یہاں طوالت کی وجہ سے سب کو ذکر نہیں کیا جا رہا ۔
مہر نبوت کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں کہا اس کے اندرونی حصہ پروَحْدَہ' لَا شَرِیْکَ کے الفاظ مرقوم تھے اور اندرونی حصے پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی تَوَجَّہُ حَیْثَ مَا کُنْتَ فَاِنَّکَ مَنّصُورٌ یعنی جدھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوں گے ہماری مدد آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم) کے ساتھ ہوگی
" مہر نبوت" کے ظاہر ہونے کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ بعض حضرات نے تو یہ کہا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک شق کر کے سیا گیا تو اس کے بعد یہ نمودار ہوئی بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے فوراً بعد یہ مہر ظاہر ہوئی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہر سمیت ہی پیدا ہوئے تھے۔ وا اللہ اعلم