غسل کا بیان
راوی:
وَعَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَمْرٍ و قَالَ نَھَی رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ طُھُوْرِ الْمَرْاَۃِ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَ زَادَاَوْقَالَ بِسُوْرِھَا وَقَالَ ھَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ)
' اور حضرت حکم بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حکم ابن عمر ہے قبیلہ غفار کی نسبت سے مشہور ہیں آپ صحابی ہیں وفات نبی کے بعد بصرہ چلے گئے ان کے سو تیلے بھائی زیاد نے انہیں خراسان کا حاکم بنایا تھا چنانچہ ان کی وفات بھی خراسان کے مضافات مقام مرو میں پچاس ہجری میں ہوئی ) فرماتے ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔" (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور ترمذی نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا عورت کے (وضو کے) بقیہ پانی سے " نیز ( ترمذی ) نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے)
تشریح
لفظ سؤر یہاں غسل یا وضو کے " بقیہ پانی" کے معنی میں ہے، اس کے لغوی معنی " جھوٹھا (کسی کا استعمال کیا ہوا)" مراد نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ راوی کو فقط لفظ میں شک واقعہ ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو " فضل" کہا ہے یا " سور" فرمایا ہے۔
اس فصل کی حدیث نمبر ٧ کے فائدے میں اس حدیث کا تذکرہ آچکا ہے ان دونوں میں جو تعارض واقع ہو رہا ہے اس کی وضاحت وہاں کی جا چکی ہے علامہ سید جمال الدین رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث اور اس کے بعد آنے والی حدیث نمبر (٢١ ) سے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے کی جو ممانعت ثابت ہو رہی ہے اس کو " نہی تنزیہی" پر محمول کیا جائے تاکہ اس حدیث اور اس حدیث نمبر (٧ ) میں جس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ مطہرہ کے غسل کے بچے ہوئے پانی سے وضو فرمایا تھا تعارض پیدا نہ ہو سکے اور دونوں حدیثیں اپنی جگہ جگہ قابل عمل رہیں۔