غسل کا بیان
راوی:
وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ انْطَلَقْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِیْ حَاجَۃٍ کَانَ مِنْ حَدِیْثِہٖ یَوْمَئِذٍ اَنْ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ فِیْ سِکَّۃٍ مِنَ السِّکَکِ فَلَقِیَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ خَرَجَ مِنْ غَآئِطٍ أَوْ بَوْلٍ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ حَتّٰی اِذَا کَادَ الرَّجُلُ اَنْ یَّتَوارَی فِی السِّکَّۃِ ضَرَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہٖ عَلَی الْحَآئِطِ وَ مَسَحَ بِھِمَا وَجْھَہ، ثُمَّ ضَرَبَ ضَرْبَۃً اُخْرٰی فَمَسَحَ ذِرَاعَیْہِ ثُمَّ رَدَّ عَلَی الرَّجُلِ السَّلَام وَقَالَ اِنَّہ، لَمْ یَمْنَعْنِیْ اَنْ اَرُدَّ عَلَیْکَ السَّلَامَ اِلَّا اَنِّی لَمْ اَکُنْ عَلٰی طُھْرٍ۔ (رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت نافع رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت عبداللہ ابن عمر استنجے کے لئے جا رہے تھے میں بھی ان کے ہمراہ ہو لیا (پہلے تو ) انہوں نے استنجاء کیا اور اس کے بعد انہوں نے اس روز یہ حدیث بیان کی کہ ایک آدمی کسی گلی محلہ میں جا رہا تھا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب یا پاخانے سے فارغ ہو کر تشریف لا رہے تھے اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہیں دیا جب یہ آدمی (دوسرے) گلی محلے میں مڑنے لگا تب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (تیمم کے لئے ) اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر مار کر منہ پر پھیرے پھر (دوسری مرتبہ) مار کر اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک پھیرے، اس کے بعد اس آدمی کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا " مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے کسی چیز نے نہیں روکا تھا فقط یہ بات تھی کہ میں بے وضو تھا۔" (ابوداؤد)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے سلام کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ دراصل " سلام " اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام ہے گوکہ عام طور پر ایسے موقع پر سلام کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے جاتے بلکہ اس سے سلامت کے معنی مراد ہوتے ہیں، مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اصل معنی کا احترام کرتے ہوئے بغیر وضو کے اللہ عزوجل کا نام لینا مناسب نہ سمجھا۔
اسی باب میں پہلے کچھ حدیثیں گزری ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے آکر بغیر وضو کے قرآن پڑھتے اور پڑھاتے تھے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر وضو کے ذکر اللہ کیا کرتے تھے۔ بظاہر وہ احادیث اور یہ حدیث آپس میں متعارض نظر آتی ہیں؟
اس تعارض کا دفعیہ یہ کہہ کر کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے وضو قرآن پڑھنا یا ذکر اللہ کرنا جیسے کہ پہلی حدیثوں میں گزرا رخصت (آسانی) پر عمل تھا۔ اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تعلیم کے لئے عزیمت (اولیٰ) پر عمل فرمایا ہے۔ یعنی یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ بے وضو اللہ کا نام لینا جائز تو ہے مگر افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ با وضو ذکر اللہ کیا جائے۔
اس حدیث سے دو چیزیں معلوم ہوئیں اوّل تو یہ کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی آدمی کسی عذر کی بناء پر سلام کا جواب نہ دے سکے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ اس کے بعد اپنا وہ عذر جس کی وجہ سے وہ سلام کا جواب نہیں دے سکا، سلام کرنے والے کے سامنے بیان کر دے تاکہ اس کی طرف غرور و تکبر کی نسبت نہ کی جا سکے یعنی سلام کرنے والا یہ سوچے کہ اس نے غرور و تکبر کی بنا پر میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔