مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 430

غسل کا بیان

راوی:

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اغْتَسَلَ بَعْضُ اَزْوَاجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِی جَفْنَۃٍ فَاَرَا دَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّتَوَضَا مِنْہ، فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنِّی کُنْتُ جُنُبًا فَقَالَ اِنَّ الْمَآءَ لَاَ یَجْنِبُ رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدُ وَابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَی الدَّارِمِیُّ نَحْوَہ، وَفِی شَرْحِ السُّنَّۃِ عَنْہُ عَنْ مَیْمُوْنَۃَ بِلَفْظِ الْمَصَابِیْحِ۔

" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ نے لگن سے (یعنی لگن میں بھرے ہوئے پانی سے ) چلو لے کر غسل کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (لگن میں بچے ہوئے) پانی سے وضو کرنے کا ارادہ فرمایا تو! انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) میں جنبی تھی (اور میں نے اس سے غسل کیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پانی تو جنبی نہیں ہوتا۔" (یعنی جنبی کے نہانے سے یا اس کے کسی عضو کے پڑنے سے پانی نا پاک نہیں ہوتا) (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) اور دارمی نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اور انہوں نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مصابیح کے ہم الفاظ روایت نقل کی ہے۔"

تشریح
اس حدیث سے تو بصراحت یہ معلوم ہوا کہ عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کا وضو کرنا جائز ہے لیکن اسی باب کی تیسری فصل میں ایک حدیث (نمبر ٢) آرہی ہے جس میں منقول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔
لہٰذا ان دونوں روایتوں میں مطابقت کے لئے کہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث تو جواز پر دلالت کرتی ہے اور وہ دوسری حدیث ترک کی اولیت پر دلالت کرتی ہے، یعنی اگر کوئی مرد عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے وضو کرنا چاہئے تو اس حدیث کی رو سے اس کا وضو جائز تو ہو جائے گا لیکن دوسری حدیث کے پیش نظر اس پانی سے وضو نہ کرنا ہی بہتر اور اولیٰ ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں