غسل کا بیان
راوی:
وعَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍالْخُدْرِیِّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَتٰی اَحَدُکُمْ اَھْلَہُ ثُمَّ اَرَادَ اَنْ ےَّعُوْدَ فَلْےَتَوَضَّاْ بَےْنَھُمَا وُضُوْئً۔(صحیح مسلم)
" حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے (یعنی صحبت کرے) اور پھر اس کے پاس آنے کا ( یعنی دوبارہ صحبت کرنے کا ) ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ دونوں کے درمیان وضو کرلے۔" (صحیح مسلم)
تشریح
ابن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے دو مرتبہ صحبت کرے اور دونوں مرتبہ کے درمیان وضو کرے تو دو فائدے ہیں۔ اول تو یہ کہ اس پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے، دوسری یہ کہ نشاط اور لذت زیادہ ہو جاتی ہے۔
بہر حال اس حدیث سے اور اس سے پہلی حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جنبی کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ حالت ناپاکی میں اگر سونے اور کھانے پینے کا یا دو بارہ جماع کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے عضو تناسل کو دھو کر وضو کرلے۔
بعض علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ جنبی کے کھانے پینے کے سلسلے میں ان احادیث میں جس وضو کا ذکر ہے، اس سے مراد حقیقۃً وضو نہیں ہے بلکہ اس کا مقصدیہ ہے کہ ایسے وقت میں ہاتھ دھو لئے جائیں اور یہی رائے جمہور علماء کرام کی ہے کیونکہ سنن نسائی کی روایت میں اس مراد کی صراحت بھی موجود ہے ۔
لیکن مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں نماز کے وضو کی طرح وضو کیا جائے، لہٰذا اب ان روایتوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لئے یہی کہا جائے گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مواقع پر کبھی کبھی اختصار کے طور پر محض ہاتھ ہی دھو لینے کو کافی سمجھتے تھے۔ مگر اکثر و بیشتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل وضو فرماتے تھے۔"