غسل کا بیان
راوی:
وَعَنْ مُّعَاذَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَتْ عَآئِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کُنْتُ اَغْتَسِلُ اَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ اِنَآءٍ وَّاحِدٍبَےْنِیْ وَبَےْنَہۤ فَےُبَادِرُ نِیْ حَتّٰی اَقُوْلَ دَعْ لِیْ دَعْ لِیْ قَالَتْ وَھُمَا جُنُبَانِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھیں کہ " میں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن جو دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا، نہاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پانی لینے میں) مجھ سے جلدی کرتے تھے تو میں کہا کرتی تھی " میرے لئے تو پانی چھوڑیئے، میرے لئے بھی تو پانی رہنے دیجئے۔" حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ دونوں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) جنبی (یعنی ناپاکی) کی حالت میں ہوتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
جس برتن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مشترکہ طور پر غسل فرماتے تھے وہ ایک طشت کی قسم سے تھا جس میں تین صاع تقریباً بارہ سیر پانی سماتا تھا، غسل کے وقت یہ دونوں اس میں ہاتھ ڈال ڈال کر پانی نکالتے اور اس سے نہاتے، حدیث کے الفاظ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پانی لینے میں) جلدی کرتے تھے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نہانے سے پہلے تھوڑے سے پانی سے نہا لیتے تھے اور بقیہ پانی چھوڑ دیتے تھے، جس سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہاتی تھیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کا برتن دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا اور دونوں اکٹھے اس سے نہاتے تھے۔ حدیث کے آخری جملے " وہ دونوں حالت ناپاکی میں ہوتے تھے کہ تحت ابن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس پانی میں جنبی ہاتھ ڈالے وہ پانی طاہر و مطہر ہے جنبی خواہ مرد ہو یا عورت۔
امام ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام کا یہ قول ہے کہ اگر محدث (بے وضو) جنبی (جس پر غسل واجب ہو) اور حائض (حیض والی عورت ) کے ہاتھ پاک ہوں اور وہ برتن میں چلو بھرنے کے لئے ہاتھ ڈالیں تو پانی مستعمل (یعنی ناقابل استعمال) نہیں ہوتا۔ کیوں کہ برتن سے پانی نکالنے کے لئے وہ اس طریقے کے محتاج ہیں۔ چنانچہ امام موصوف اپنے اس قول کی دلیل میں یہی حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ " اس کے برخلاف اگر جنبی پانی کے برتن میں اپنا پاؤں یا سر ڈالے تو پھر پانی نا قابل استعمال ہو جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں اسے کوئی مجبوری نہیں ہے اور نہ اسی طریقہ کی ضرورت ہے۔