وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ قَالَ قُلْتُ لِعُبَیْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رَاَیْتُ وُضُوْءَ عَبْدِاﷲِ ابْنِ عُمَرَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ طَاھِرًا کَانَ اَوْغَیْرَ طَاھِرٍ عَمَّنْ اَخَذَہُ فَقَالَ حَدَّثْہُ اَسْمَآءُ بِنْتُ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ اَنَّ عَبْدَاﷲِ بْنَ حَنْظَلَۃَ بْنِ اَبِی عَامِرِ الْغُسَیْلِ حَدَّثَھَا اَنَّ رَسُّولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمکَانَ اُمِرَ بِالْوُضُوْءِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ طَاھِرًا کَانَ اَوْغَیْرَ طَاھِرِ فَلَمَّا شَقَّ ذٰلِکَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اُمِرَ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ وَوُضِعَ عَنْہُ الْوُضُوْءُ اِلَّا مِنْ حَدَثٍ قَالَ فَکَانَ عَبْدُاﷲِ یَرَی اَنَّ بِہٖ قُوَّۃً عَلَی ذٰلِکَ فَفَعَلَہ، حَتّٰی مَاتَ۔(راوہ مسند احمد بن حنبل)
" اور حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ مجھے یہ بتائیے کہ کیا حضرت عبداللہ ابن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے خواہ وہ باوضو ہوں یا بے وضو اور انہوں نے یہ عمل کس سے حاصل کیا تھا؟ حضرت عبیداللہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت اسماء بنت زید بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن حنظلہ ابی عامر الغسیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے یہ حدیث بیان کی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کا وضو کرنے کے لئے حکم دیا گیا تھا خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باوضو ہوں یا بے وضو جب آپ کے لئے یہ مشکل ہوا تو ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیا گیا اور وضو کو موقوف کیا گیا (یعنی ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنا واجب نہ رہا، جب تک وضو ٹوٹ نہ جائے" حضرت عبداللہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ خیال تھا کہ مجھ میں ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنے کی قوت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسی پر موت کے وقت تک عمل کیا۔" (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
لفظ غسیل کے معنی ہیں " نہلایا گیا " یہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفت ہے، حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسیل اس لئے کہا جاتا ہے کہ انتقال کے بعد انہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔ چنانچہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا کہ ان کا کیا حال تھا؟ (یعنی جب وہ گھر سے نکلے تو کیا کام کر رہے تھے) انہوں نے جواب دیا کہ وہ حالت ناپاکی میں تھے اور (نہانے کے وقت) اپنے سر کا ایک ہی حصہ دھوپائے تھے کہ اتنے میں انہوں نے صدا سنی (کہ جہاد کے لئے بلایا جا رہا ہے، چنانچہ وہ اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کھڑے ہوئے اور (غزوہ احد میں) جام شہادت نوش فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " میں نے دیکھا کہ فرشتے انہیں نہلا رہے تھے۔" (طیبی)
بہر حال طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسواک بہت زیادہ فضیلت اور بزرگی رکھتی ہے کہ جب ہی تو اسے واجب وضو کا قائم مقام قرار دیا گیا۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز کے لئے تازہ وضو اس لئے کرتے تھے کہ انہوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اگرچہ اس کا وجوب منسوخ ہوگیا ہے مگر اس آدمی کے لئے جو اس پر عمل کی طاقت وقوت رکھتا ہے اس کی فضیلت باقی ہے اس لئے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ میرے اندر اتنی قوت و ہمت ہے کہ میں اس عمل کو بخوبی پورا کر سکتا ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس فضیلت و سعادت سے محروم رہوں۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنا معمول بنا لیا کہ ہر نماز کے لئے تازہ وضو فرماتے اور جب تک موت کی آغوش نے انہیں اپنے اندر چھپانہ لیا وہ اس معمول پر قائم و دائم رہے۔