وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ رَاَئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماِذَا تَوَجَّاَ مَسَحَ وَجْھَہُ بِطَرَفِ ثَوْبِہٖ۔ (رواہ الجامع ترمذی)
" اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو اپنے کپڑے کے کونے سے اپنا منہ پونچھتے۔" (جامع ترمذی )
تشریح
جب آپ وضو سے فارغ ہو جاتے تو پانی خشک کرنے کے لئے اپنے کپڑے یعنی چادر وغیرہ کے کونے سے اپنا منہ پونچھ لیتے تھے۔ زیلعی نے شرح کنز میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد رومال سے (پانی) خشک کر لینا جائز ہے چنانچہ جیسا کہ حضرت عثمان، حضرت انس، اور حسن ابی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارے میں بھی یہی منقول ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ صاحب منیہ نے وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا مستحب لکھا ہے۔
حنفی مسلک کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد پانی خشک کرنے کے لئے اعضاء وضو کو (کسی کپڑے یا رومال اور تولیہ وغیرہ سے ) پوچھنا اگر ازراہ تکبر و غرور ہو تو مکروہ ہے اور غرور و تکبر کی بنا پر نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں نہ تو وضو کرنے والے کے لئے اور نہ غسل کرنے والے کے لئے کپڑے سے پانی خشک کرنا سنت ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرما چکے تو ام لمومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک رومال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھیگے ہوئے اعضاء پونچھ لیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا اور اعضاء وضو پر لگے ہوئے پانی کو ہاتھ سے کے ذریعہ ٹپکانے لگے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضاء وضو کو رومال سے پونچھنے سے اس لئے انکار نہیں کیا تھا کہ یہ چیز مناسب نہیں تھی بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی خاص عذر کی بناپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومال واپس فرما دیا ہو۔