وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَمْرِوابْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ جَآءَ اَعْرَابِیٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلّٰی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُہ، عَنِ الْوُضُوْءِ فَاَرَاہُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ ھَکَذَا الْوُضُوْءُ فَمَنْ زَادَ عَلَی ھَذَا فَقَدْ اَسَاءَ وَ تَعَدَّی وَظَلَمَ۔ (رواہ السنن نسائی وابن ماجۃ وروی ابوداؤد و معناہ)
" اور حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ " ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کی کیفیت پوچھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اعضاء وضو کو تین مرتبہ دھو کر دکھلایا اور فرمایا کہ (کامل) وضو اس طرح ہے لہٰذا جس نے اس پر زیادہ کیا (یعنی تین مرتبہ سے زیادہ دھویا) اس نے برا کیا، تعدی کی اور ظلم کیا۔" (سنن نسائی و سنن ابن ماجہ اور ابوداؤد نے بھی اسی مطلب کی حدیث روایت کی ہے۔)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے جواب میں اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھو کر دکھایا اور اسے بتا دیا کہ اگر تم کامل وضو چاہتے ہو اور اس پر ثواب کے متمنی ہو تو پھر وضو اسی طرح کرو۔ اس پر زیادتی کرنا یعنی اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے زیادہ دھونا وضو کرنے والے کے حق میں کوئی مفید بات نہیں ہوگی بلکہ نقصان دہ ہو گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کے بارے میں تین الفاظ، استعمال فرمائے ہیں۔
(١) برا کیا۔ اس لئے کہ اس نے سنت کو ترک کیا۔
(٢) تعدی کی۔ یعنی زیادتی کر کے حدود سنت سے تجاوز کیا۔
(٣) ظلم کیا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور سنت کے خلاف عمل کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا۔