مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 390

وضو کی سنتوں کا بیان

راوی:

وَعَنْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ اَنَّہ، رَایءَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم تَوَضَّأَ وَاَنَّہ، مَسَحَ رَأْسَہ، بِمَاءٍ غَیْرَ فَضْلِ یَدَیْہِ۔ (رواہ صحیح مسلم)

" اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سرکا مسح اس پانی سے کیا جو ہاتھوں کا بچا ہوا نہ تھا (یعنی نیا پانی لے کر مسح کیا۔) (جامع ترمذی ، اور مسلم نے اس روایت کو زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ جس میں دیگر اعضاء وضو کے دھونے کا بھی ذکر ہے)۔

تشریح
فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مثلاً ایک آدمی نے وضو کے وقت ہاتھ دھویا اور ہاتھ دھونے کے بعد جو تری اس کے ہاتھوں میں باقی رہ گئی تھی تو اس سے سر کا مسح کر لیا تو مسح ہو جائے، اور اگر کسی عضو پر مسح کرنے کے بعد اس کے ہاتھوں میں تری رہ گئی تو اس سے سر کا مسح کیا تو یہ درست نہیں ہوگا۔ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک حدیث بھی نقل کی جاتی ہے، نیز اس مذکورہ حدیث کو بھی ابن لہیعہ کی روایت سے نقل کیا گیا ہے جس میں بماء غبر فضل یدیہ یعنی لفظ غبرنا کے ساتھ غبر ہے جس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ اس پانی کے ساتھ مسح کیا جو ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا، یعنی مسح کے لئے از سر نو پانی نہیں لیا بلکہ پورے ہاتھ دھونے کے بعد جو تری ہاتھوں میں رہ گئی تھی اس سے مسح کر لیا۔ اس طرح حدیث کے معنی بالکل برعکس ہوگئے کیونکہ اس حدیث کے الفاظ سے جو یہاں نقل کی گئی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کا مسح ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے نہیں کیا بلکہ نیا پانی لے کر کیا لیکن مذکورہ بالا شکل میں صرف ایک نقطہ کے تغیر سے معنی بالکل برعکس ہوگئے۔
مگر جہاں تک سوال کی تحقیق کا ہے تو بات یہی ہے کہ حدیث یہ صحیح ہے جو یہاں نقل کی گئی ہے، لہٰذا۔ اولیٰ یہ ہوا اگر مسح کے لئے نیا پانی لیا جائے اور یہ بھی جائز ہو کہ ہاتھ کے باقی بچے ہوئے پانی سے مسح کیا جا سکتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں