وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنِ الرُّبَیْعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ اَنَّھَارَاتٍ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَوَضَّأُ قَالَتْ فَمَسَحَ رَأْسَہُ مَا اَقْبَلَ مِنْہُ وَمَا اَدْبَرَ وَصُدْغَیْہِ وَاُذْنَیْہِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً وَفِی رِوَایَۃٍ اَنَّہُ تَوَضَّأَ فَاَدْخَلَ اِصْبَعَیْہِ فِی جُحْرَیْ اُذُنَیْہِ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَیَ التِّرَمَذِیُّ الرِّوَایَۃُ الْاُوْلَی وَاَحْمَدُ وَ ابْنَ مَاجَۃَ الثَّانِیَۃَ)
" اور حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( اسم گرامی ربیع ہے معوذ کی لڑکی ہیں، آپ جلیل القدر صحابیہ ہیں اور انصاریہ ہیں آپ بیعت رضوان میں شامل تھیں۔) سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا چنانچہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کے اگلے حصہ پر، پچھلے حصہ پر، کنپٹیوں پر اور کانوں پر ایک مرتبہ مسح کیا، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا چنانچہ (مسح کے لئے) اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں کے سوراخوں میں داخل کیا۔" (ابوداؤد) جامع ترمذی نے پہلی حدیث کو اور سنن ابن ماجہ نے دوسری حدیث کو روایت کیا ہے۔)
تشریح
لفظ صدغیہ اور اذنیہ لفظ راسہ پر عطف ہیں اسے عطف خاص علی العام فرماتے ہیں یعنی سر کے پانی کے ساتھ مسح کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پر پانی لے کر سر کا مسح کیا تو اسی پانی سے کنپٹیوں اور کانوں پر بھی مسح کر لیا اور ان دونوں کے مسح کے لئے علیحدہ سے پانی نہیں لیا، چنانچہ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔
صدغ کان اور آنکھ کے درمیانی حصہ کو فرماتے ہیں اردو میں کنپٹی کہا جاتا ہے، نیز جو بال اس جگہ پر لٹکے رہتے ہیں اسے بھی صدغ فرماتے ہیں۔ ( قاموس) اور (امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ صدغ ان بالوں کو فرماتے ہیں جو سر کے دونوں طرف کان اور ناصیہ (پیشانی کے بال) کے درمیان ہوتے ہیں، یہی معنی حنفی مسلک کے مطابق اور مناسب ہیں۔
شرح السنتہ میں منقول ہے کہ علماء کے یہاں مسئلہ میں اختلاف ہے کہ تین مرتبہ مسح کرنا سنت ہے یا نہیں ؟ چنانچہ اکثر علماء یہ فرماتے ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے، یہی مسلک حضرت امام اعظم، امام احمد، امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ تین مرتبہ مسح اس طرح کرنا کہ ہر مرتبہ نیا پانی لیا جائے سنت ہے، چنانچہ اکثر علماء کا یہی خیال ہے مگر خود امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تین مرتبہ مسح کرنے کو مستحب فرماتے ہیں، امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں حضرت عثمان غنی سے جو احادیث مروی ہیں وہ سب صحیح ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے۔
شمنی فرماتے ہیں کہ ہر دفعہ نئے پانی کے ساتھ تین مرتبہ کرنا بدعت ہے مگر ہدایہ میں لکھا ہے کہ ایک ہی پانی سے تین مرتبہ مسح کرنا مشروع ہے اور یہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی منقول ہے ۔ وا اللہ اعلم۔