مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 374

وضو کی سنتوں کا بیان

راوی:

وَعَنْ عُثْمَانَ اَنَّہُ تَوَضَّأَ بِالْمَقَاعِدِ فَقَالَ اَلَا اُرِےْکُمْ وُضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَوَضَّأَ ثَلٰثًا ثَلٰثًا۔(صحیح مسلم)

" اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے مقام مقاعد میں وضو کیا اور کہا کہ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو نہ دکھلاؤں؟چنانچہ انہوں نے تین تین مرتبہ وضو کیا (یعنی انہوں نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھو کر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح وضو فرماتے تھے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعضاء وضو کو کبھی ایک ایک مرتبہ دھوتے تھے کبھی دو دو مرتبہ دھوتے تھے اور کبھی تین تین مرتبہ دھوتے تھے ، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ اکثر تین تین مرتبہ ہی دھوتے تھے۔
ان میں تطبیق اس طرح ہوگی کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعضاء وضو کو کبھی کبھی ایک ایک مرتبہ دھونا بیان جواز کے لئے تھا یعنی اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک ایک مرتبہ دھونا جائز ہے اور اس طرح وضو ہو جاتا ہے کیونکہ یہ ادنی درجہ ہے اور فرض بھی ایک ایک مرتبہ ہی دھونا ہے، اسی طرح دو دو مرتبہ بھی بیان جواز کے لئے دھوتے تھے کہ اس طرح بھی وضو ہوجاتا ہے اور اکثر و بیشتر تین تین مرتبہ اس لئے دھوتے ہیں کہ یہ طہارت کا انتہائی درجہ ہے، لہٰذا عضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھونا سنت ہے اور اس پر زیادتی کرنا منع ہے، بعض احادیث میں بعض اعضاء کو تین تین مرتبہ بعض اعضاء کو دو دو مرتبہ اور بعض اعضاء کو ایک ایک مرتبہ بھی دھونا ثابت ہے چنانچہ یہ سب طریقے بھی بیان جواز کے لئے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونا گناہ ہے کیونکہ اس طرح سنت مشہورہ ترک ہوتی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ جب خود احادیث سے ایک ایک مرتبہ دھونا ثابت ہے اسے گناہ کہنا مناسب نہیں ہے۔
آخر حدیث کے یہ الفاظ کہ " تین تین مرتبہ وضو کیا " یعنی اعضاء وضو کو تین بار دھویا۔ اس سے بظاہر تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ سر کا مسح بھی تین مرتبہ کیا ہوگا لیکن جن روایتوں میں اعضاء وضو کے دھونے کی تفصیل اور وضاحت کی گئی ہے جیسے کہ صحیحین کی روایتیں گزری ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک ہی مرتبہ ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں