مسواک کرنے بیان
راوی:
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَاقَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلمعَشْرٌمِّنَ الْفِطْرَۃِ:قَصُّ الشَّارِبِ، وَاِعْفَاءُ اللِّحْیَۃِ،وَالسِّوَاکُ، وَاسْتِنْشَا قُ الْمَائِ،وَقَصُّ الْاَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ،وَنَتْفُ الْاِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَۃِ،وَانْتِقَاصُ الْمَائِ-یَعْنِیْ الْاِسْتِنْجَائَ۔ قَالَ الرَّاوِیُّ وَنَسِیْتُ الْعَاشِرَۃَ اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ الْمَضْمَضَۃُ۔ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ۔)وفی رواتۃ الختان بدل اعفاء اللحیۃ لم اجد ھذہ الروایۃ فی الصحیحین ولا فی کتاب الحمیدی ولکن زکر ھا صاحب الجامع وکذا الخطابی فی معالم السنن عن ابی داود۔ (روایۃ عمار بن یاسر)
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " دس چیزیں فطرت میں سے ہیں (یعنی دین کی باتیں) (١) لبوں کے بال کٹوانا (٢) داڑھی کا بڑھانا (٣) مسواک کرنا (٤) ناک میں پانی دینا (٥) ناخن کٹوانا (٦) جوڑوں کی جگہ کو دھونا (٧) بغل کے بال صاف کرنا (٨) زیر ناف بالوں کو مونڈنا (٩) پانی کا کم کرنا یعنی استنجاء کرنا " راوی یعنی مصعب یا زکریا کا بیان ہے کہ دسویں چیز کو میں بھول گیا، ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو۔ (صحیح مسلم) اور ایک روایت میں (دوسری چیز) " داڑھی بڑھانے" کے بجائے " ختنہ کرانا " ہے اور (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں کہ " مجھے یہ روایت نہ صحیحین یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں ملی ہے اور نہ کتاب حمیدی میں (جو صحیحین کی جامع ہے، البتہ اس روایت کو صاحب جامع الاصول نے (اپنی کتاب میں) ذکر کیا ہے، اسی طرح خطابی نے معالم السنن میں ابوداؤد کے حوالہ سے حضرت عمر ابن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے ساتھ نقل کیا ہے۔"
تشریح :
اس حدیث میں جن دس چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ تمام چیزیں پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت میں سنت تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت یعنی دین اسلام میں بھی سنت ہیں چنانچہ اکثر علماء کرام کے نزدیک فطرت کے یہی معنی ہیں، دوسری شروحات میں اس کے علاوہ علماء کے دوسرے اقوال بھی منقول ہیں لیکن طوالت کی بناء پر یہاں سب کو ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
پہلی چیز لبوں کے بال یعنی مونچھوں کا کٹوانا ہے، اس سلسلہ میں مختار مسلک" یہی ہے مونچھیں کتروائی جائیں اور اس طرح کتروائی جائیں کہ اوپر کے ہونٹ کا کنارہ معلوم ہونے لگے۔
امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک روایت یہ ہے کہ مونچھیں بھوؤں کی برابر رکھنی چاہئیں۔ البتہ غازیوں اور مجاہدوں کو زیادہ مونچھیں بھی رکھنی جائز ہے کیوں کہ زیادہ مونچھیں دشمن کی نظر میں دہشت کا باعث ہوتی ہیں اور اس سے ان پر رعب چھا جاتا ہے، مونچھوں کا زیادہ کٹوانا کہ ان کا نشان بھی باقی نہ رہے یا بالکل منڈوانا مکروہ ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک حرام ہے مگر بعض علماء نے اسے سنت بھی کہا ہے۔
دوسری چیز داڑھی کا بڑھانا ہے، اس کے بارے میں علماء کا فیصلہ ہے کہ داڑھی کی لمبائی ایک مٹھی کے برابر ہونا ضروری ہے اس سے کم نہ ہونا چاہئے اگر مٹھی سے زیادہ بھی ہو جائز ہے بشر طیکہ حد اعتدال سے نہ بڑھ جائے۔
داڑھی کو منڈوانا یا پست کرنا حرام ہے کیونکہ یہ اکثر مشرکین مثلاً انگریز و ہندو کی وضع ہے، اسی طرح منڈی ہوئی یا پست داڑھی ان لوگوں کی وضع ہے جنہیں دین سے کوئی حصہ نصیب نہیں ہے کہ جن کا شمار " گروہ قلندری رمد مشرب" میں ہوتا ہے۔
داڑھی کے بال ایک مٹھی کے برابر چھوڑنا واجب ہے اسے سنت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت سنت سے ہے جیسے نماز عید کو سنت فرماتے ہیں حالانکہ عید واجب ہے۔
اگر لمبائی یا چوڑائی میں کچھ بال آگے بڑھ کر بے ترتیب ہو جائیں تو ان کو کتروا کر برابر کرنا جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ انہیں بھی نہ کتروایا جائے، اگر کسی عورت کی داڑھی نکل آئے تو اسے صاف کر ڈالنا مستحب ہے۔
تیسری چیز مسواک کرنا ہے، اس کے متعلق پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ مسواک کرنا بالاتفاق علماء کرام کے نزدیک سنت ہے، بلکہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے تو اسے واجب کہا ہے، حضرت شاہ اسحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہی ہے کہ اگر کوئی آدمی مسواک کو قصدا چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل ہوگی،
چوتھی چیز ناک میں پانی دینا ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وضو کے لئے ناک میں پانی دنیا مستحب ہے اور غسل کے لئے ناک میں پانی دینا فرض ہے یہی حکم کلی کا بھی ہے کہ وضو میں کلی کرنا سنت ہے اور غسل میں فرض ہے۔
پانچویں چیز ناخن کا کٹوانا ہے، ناخن کسی طرح بھی کٹوائے جائیں اصل سنت ادا ہو جائے گی لیکن اولٰی اور بہتر یہ ہے کہ ناخن کٹوانے کے وقت یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے ناخن کٹوائے جائیں اس کے بعد بیچ کی انگلی کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی کے پھر چھنگلیا کے پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں، اس کے بعد بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے ناخن اس طرح کٹوائے جائیں کہ سب سے پہلے چھنگلیا کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی اس کے بعد بیچ کی انگلی اس کے بعد شہادت کی انگلی اور پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں۔
بعض علماء کرام نے یہ طریقہ بھی لکھا ہے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے ناخن کٹوانا شروع کرے اور چھنگلیا پر پہنچ کر روک دے پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے شروع کرے اور اس کے انگوٹھے تک پہنچ کر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کر دے۔
اسی طرح پیر کے ناخن اس طرح کٹوانا چاہئے کہ پہلے دائیں پیر کی چھنگلیا سے کٹوانا شروع کرے اور آخر میں بائیں بیر کی چھنگلیا پر لے جا کر ختم کرے بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ جمعہ کے روز ناخن کتروانا مستحب ہے، کچھ حضرات نے ناخن کٹوا کر ان کو زمین میں دفن کر دینے کو بھی مستحب لکھا ہے، اگر ناخن پھینک دیئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ان کو پاخانہ میں یا غسل کی جگہ میں پھینکنا مکروہ ہے۔
چھٹی چیز براجم یعنی جوڑوں کی جگہ کو دھونا ہے، براجم فرماتے ہیں انگلیوں کی گانٹھوں (جوڑوں) کو اور اس کی اوپر کی کھال کو جو چنٹ دار ہوتی ہے اس میں اکثر میل جمع ہوتا ہے ۔ خصوصاً جو لوگ ہاتھ سے کام کاج زیادہ کرتے ہیں ان کی انگلیاں سخت ہو جاتی ہیں اور ان میں میل جم جاتا ہے، لہٰذا ان کو دھونے کی تاکید فرمائی جا رہی ہے، اسی طرح بدن کے وہ اعضاء جن میں میل جم جانے کا گمان ہو جیسے کان، بغل، ناف ان کو بھی دھونے کا یہی حکم ہے۔
ساتویں چیز بغل کے بالوں کو صاف کرنا ہے، اس سلسلہ میں نتف استعمال فرمایا گیا ہے، نتف بال اکھاڑنے کو فرماتے ہیں، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ بغل کے بالوں کو منڈوانا سنت نہیں ہے بلکہ ان کو ہاتھ سے اکھاڑنا سنت ہے مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ بغل کے بالوں کو ہاتھ سے اکھاڑنا اس آدمی کے لئے افضل ہے جو اس کی تکلیف کو برداشت کر سکتا ہو، ویسے بغل کے بالوں کا منڈوانا یا نورے سے صاف کرنا بھی جائز ہے۔
آٹھویں چیز زیر ناف بالوں کو مونڈنا ہے، یہ بھی سنت ہے، زیر ناف بال، اگر منڈانے کی بجائے اکھاڑے جائیں، یا نور سے صاف کئے جائیں تو بھی ان کے حکم میں شامل ہوں گے مگر قینچی سے کاٹنے میں سنت ادا نہیں ہوتی۔ مقعد (پاخانہ کے مقام) کے گرد جو بال ہوتے ہیں ان کو بھی صاف کرنا مستحب ہوتا ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر ناف بالوں نورے ( نورہ ایک خاص مرکب چیز کو فرماتے ہیں جو ہڑتال اور چونے سے ملا کر بنائی جاتی تھی جس سے بال اڑجاتے ہیں۔) سے صاف کیا کرتے تھے وا اللہ اعلم۔
عورتوں کو زیر ناف بال اکھاڑنا اولیٰ ہے کیونکہ اس سے خاوند کو رغبت زیادہ ہوتی ہے، نیز عورت کے اندر چونکہ خواہشات نفسانی اور شہوت ننانوے حصہ ہوتی ہے اور مرد میں صرف ایک حصہ ہوتی ہے اور یہ طے ہے کہ زیر ناف بال اکھاڑنے سے شہوت کم ہوتی ہے اور مونڈنے سے قوی ہوتی ہے، لہٰذا عورت کے مناسب حال یہی ہے کہ وہ بال اکھاڑے اور مرد کے مناسب حال یہ ہے کہ وہ مونڈے۔
زیر ناف بال مونڈنے، بغل کے بال اکھاڑنے، مونچھیں کتروانے اور ناخن کٹوانے کی مدت زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہونی چاہئے، چالیس دن کے اندر اندر ان کو صاف کر لینا چاہئے اس سے زیادہ مدت تک انہیں چھوڑے رکھنا مکروہ ہے۔
نویں چیز پانی کا کم کرنا یعنی پاکی کے ساتھ استنجاء کرنا ہے۔ انتقاص الماء کے دو مطلب ہیں ایک تو یہی جو راوی نے بیان کئے ہیں یعنی پانی کے ساتھ استنجاء کرنا چونکہ استنجاء کرنے میں پانی خرچ ہوتا ہے اور کم ہو جاتا ہے اس لئے اس انتقاص الماء (پانی کا کم کرنا) سے تعبیر کیا گیا ہے، دوسرے معنی یہ کہ پانی کے استعمال یعنی استنجاء کرنے کی بناء پر پیشاب کو کم کرنا، مطلب یہ ہے کہ پانی سے استنجاء کرنے کی وجہ سے پیشاب کے قطرے رک جاتے ہیں اس طرح پیشاب میں کمی ہو جاتی ہے۔
ایک دوسری روایت میں انتقاص کی جگہ لفظ انتقاض آیا ہے اس کے معنی ہیں ستر کے اوپر پانی چھڑکنا جیسا کہ پہلی حدیثوں میں گزر چکا ہے، بہر حال یہ دونوں چیزیں بھی سنت ہیں ۔
ختنہ چونکہ شعائر اسلام میں سے ہے اس لئے اگر کسی شہر کے تمام لوگ ختنہ ترک کر دیں تو امام وقت کو ان کے ساتھ جنگ کرنی چاہئے تا آنکہ وہ لوگ اس اسلامی شعائر کو اختیار کر لیں جیسے آذان کے بارے میں حکم ہے۔
ختنہ کرنے کی عمر اور وقت کے تعین میں علماء کے یہاں اختلاف ہے، بعض علماء کے نزدیک پیدائش کے ساتویں دن ختنہ کر دینا چاہئے جیسے عقیقہ ساتویں دن ہوتا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک سال اور بعض کے نزدیک نو سال کی مدت ہے، بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی قید نہیں ہے، جب چاہے ختنہ کر دیا جائے، گویا بالغ ہونے سے پہلے پہلے جب بھی وقت اور موقع ہو ختنہ کرایا جا سکتا ہے، امام اعظم کے نزدیک اس صورت میں بلوغ سے پہلے کی شرط بطور خاص ہے کیونکہ ختنہ کرنا سنت ہے اور بالغ ہونے کے بعد ستر چھپانا واجب ہے اس لئے اگر کوئی آدمی بالغ ہونے کے بعد ختنہ کرائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے ایک سنت کو ادا کرنے کے لئے واجب کو ترک کر دیا حالانکہ سنت کی ادائیگی کے لئے واجب کو ترک کر دینا جائز نہیں۔