مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 354

مسواک کرنے بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَمَرْتُھُمْ بِتَاخِےْرِ الْعِشَآءِ وَباِلسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوۃٍ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " اگر میں اپنی امت پر اس بات کو مشکل نہ جانتا تو مسلمانوں کو یہ حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز دیر سے پڑھیں اور ہر نماز کے لئے مسواک کریں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح :
عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنا مستحب اور بڑی فضیلت کی بات ہے اسی طرف یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میری امت دشواری میں مبتلا ہو جائے گی تو میں یہ فرض قرار دیتا کہ تمام مسلمان عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھا کریں" اب تاخیر کی حد کیا ہے؟ اس بارے میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ تہائی یا آدھی رات تک عشاء کی نماز پڑھنا مستحب ہے۔
دوسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ اگر اس معاملہ میں بھی تنگی و مشکلات کا خوف نہ ہوتا تو اس بات کا علان کر دیتا کہ ہر نماز کے وقت یعنی ہر نماز کے وضو کے وقت مسواک کرنا فرض ہے۔
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ امت کے حق میں سراپا رحمت و شفقت ہیں اس لئے آپ نے ان چیزوں کو فرض کا درجہ نہیں دیا کہ فرض ہونے کی شکل میں مسلمان تنگی اور تساہلی کی بناء پر ان فرائض پر عمل نہیں کر سکیں گے نتیجے کے طور پر گناہ گارہوں گے، لہٰذا ان کو صرف مستحب ہی قرار دیا کہ اگر کوئی آدمی ان پر عمل نہ کرے اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور کوئی اللہ کا بندہ اس پر عمل پیرا ہو جائے تو یہ اس کے حق میں سرا سر سعادت و نیک بختی کی بات ہوگی۔

یہ حدیث شیئر کریں