پاخانہ کے آداب کا بیان
راوی:
وَعَنْ مَرْوَانَ الْاَصْفَرِ قَالَ رَاَیْتُ بْنَ عُمَرَ اَنَاخَ رَاحِلَتَہُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ ثُمَّ جَلَسَ یَبُوْلُ اِلَیْھَا فَقُلْتُ یَا اَبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ اَلَیْسَ قَدْنُھِیَ عَنْ ھٰذَا قَالَ بَلْ اِنَّمَا نُھِیَ عَنْ ذٰلِکَ فِی الْفَضَآءِ فَاِذَا کَانَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ شَیْی ءٌ یَسْتُرُکَ فَلَا بَأْسَ۔ (رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت مروان اصفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنا اونٹ قبلہ کی طرف بیٹھایا پھر خود بیٹھے اور اونٹ کی طرف پیشاب کیا میں نے (یہ دیکھ کر) عرض کیا " ابوعبدالرحمن!(یہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ہے) کیا اس طرح قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے سے منع فرمایا گیا " انہوں نے فرمایا " ہاں جنگل میں اس سے منع فرمایا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔" (ابوداؤد)
تشریح :
اس مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے دلیل پکڑتے تھے جسے اس باب کی پہلی حدیث میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبلہ کی طرف پشت کر کے پاخانہ کرتے ہو دیکھا تھا اور یہ اسی موقع پر بتایا جا چکا ہے کہ اس فعل میں کئی احتمالات پیدا ہوتے ہیں لہٰذا فعل محتمل کو دلیل کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اور پھر اس کی بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر احادیث سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کرنے کا حکم عام ہے اس میں جنگل کی تخصیص نہیں ہے اسی لئے امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ اس حکم میں جنگل و آبادی سب برابر ہیں قبلہ کی طرف منہ و پشت کرنا ہر جگہ ممنوع ہے خواہ جنگل کا کھلا میدان ہو یا آبادی میں گھرے ہوئے مکانات۔