پاخانہ کے آداب کا بیان
راوی:
وَعَنْ سَلْمَان قَالَ قَالَ بَعْضُ الْمُشْرِکِےْنَ وَھُوَ ےَسْتَھْزِئُ اِنِّی لَاَرٰی صَاحِبَکُمْ ےُعَلِّمُکُمْ حَتّٰی الْخَرَاۃَ قُلْتُ اَجَلْ اَمَرَنَا اَنْ لَّا نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃَ وَلَا نَسْتَنْجِیَ بِأَےْمَانِنَا وَلَا نَکْتَفِیْ بِدُوْنِ ثَلٰثَۃِ اَحْجَارٍ لَےْسَ فِےْھَا رَجِےْعٌ وَلَا عَظْمٌ۔ (رواہ صحیح مسلم )
" اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی نے بطور استہزاء یہ کہا کہ میں تمہارے سردار (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھتا ہوں تو وہ تمہیں ہر چیز سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پاخانہ بیٹھنے کی صورت بھی؟ میں نے کہا! ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ (استنجے کے وقت ) ہم قبلہ کی طرف رخ کر کے نہ بیٹھیں اپنے دائیں ہاتھوں سے استنجاء پاک نہ کریں، تین پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کریں اور ان پتھروں میں نجاست (یعنی پاخانہ، لید گوبر) اور نہ ہڈی ہو۔" (مسلم مسند احمد بن حنبل الفاظ مسند احمد بن حنبل کے ہیں)
تشریح :
اگر مذہب کی بنیاد پر حقیقت کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوگی کہ مذہب اور دین دراصل نام ہے ایک مکمل ضابطہ حیات کا اور ایک دستور کامل ہے نظام زندگی کا جس میں انسانوں کے لئے دین اور دنیا دونوں جگہ کے لئے مکمل رہبری، کامل راہنمائی اور ہمہ گیر ہدایات ہوں۔
اگر چند مخصوص اعتقادات پر چند مخصوص عبادات اور چند اعمال کا نام، مذہب اور دین، رکھ دیا جائے تو وہ کامل و مکمل مذہب وہ دین ہی نہیں بلکہ انسانی دماغ کے اختراعات اور نظریات کا مجموعہ ہے۔
اسلام دوسرے تمام مذاہب میں اگر اپنی کوئی امتیازی شان رکھتا ہے اگر دوسرے دینوں پر کوئی تفوق و برتری رکھتا ہے اور اگر دوسری شریعتوں میں اکملیت کا کوئی درجہ رکھتا ہے تو وہ اسلام کی شان ہمہ گیریت اور اس کی شان جامعیت ہے مسلمانوں کو چھوڑئیے وہ تو اسلام کی پیروی کرنے والے ہیں ہیں، دنیا کے وہ دانشور اور عقلاء بھی اسلام کے اعتقادات و احکامات کے پابند و متبع نہیں ہیں، آج اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں اور دنیا کی تمام شریعتوں میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب اور دین ہے جو انسانوں کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات ایک نظام زندگی اور کائنات کے ہر شعبہ پر حاوی ایک مجموعہ ہدایات ہے جو انسانی زندگی کے ہر چھوٹے و بڑے مسئلہ کی رہبری کرتا ہے۔
چنانچہ اسلام اگر ایک طرف اعتقادات و نظریات کی انتہائی بلندی تک جن و انس کی راہنمائی کرتا ہے، عبادت و احکامات کے بلند و بالا نظام کا تفوق بخشتا ہے، تو دوسری طرف زندگی کی ان چھوٹی راہوں کی بھی معرفت عطا کرتا ہے جو دنیا والوں کی نظر میں حقیر ہیں، جن کی طرف دوسرے مذاہب آنکھ بھی نہیں اٹھاتے۔
دیکھئے ایک بے بصیرت اور عقل و دانائی کا دشمن مشرک مسلمانوں کا یہی تو مزاق اڑا رہا ہے کہ شارع اسلام کی شان و شوکت کا بھی کوئی تقاضا ہے کہ وہ ہر چیز کو سکھاتے پھریں، یہاں تک کہ وہ پیشاب و پاخانہ تک کے مسائل اور ان کے طور طریقے بتاتے ہیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اسی کا جواب دے رہے ہیں کہ اے بے خبرادر، نادان انسان! یہ ہنسنے کی بات نہیں ہے ، استہزاء کا مقام نہیں ہے، تجھے کیا معلوم کہ ہمارے سردار ہم پر کتنے شفیق ہیں ہم پر کتنے مہربان ہیں؟ امت پر انتہائی شفقت و محبت ہی کی یہ وجہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر مرحلہ پر ہماری راہنمائی فرماتے ہیں۔
اگر ایک طرف صلی اللہ علیہ وسلم تو حید و رسالت کے عقائد اور نماز روزہ ، زکوۃ اور حج جیسے دینی اصول کے احکام و مسائل ہمیں بتاتے ہیں تو دوسری طرف پیشاب و پاخانہ جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے آداب بھی بتائے ہیں اور ہدایات اور راہنمائی کا یہی تو وہ مقام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت ہم قبلہ کی طرف پشت و رخ کر کے نہ بیٹھیں کہ اس سے قبلہ کے احترام پر حرف آتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا جائے یہ چیز پاکیزگی و نظافت کے منافی ہے کہ جس ہاتھ سے کھانا کھایا جائے اسی ہاتھ سے گندگی و غلاظت کی صفائی کی جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہتر قرار دیا ہے کہ تین ڈھیلوں یا پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کیا جائے کہ صفائی و پاکیزگی کا تقاضا یہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ استنجاء کے ڈھیلوں میں لید و گوبر اور دوسری نجاست نہ ہو کہ اس سے بجائے پاکیزگی حاصل ہونے کے اور زیادہ غلاظت و گندگی لگے گی اور ہڈی سے استنجاء نہ کیا جائے کیونکہ ہڈی جنات کی خوراک ہے۔