مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 341

پاخانہ کے آداب کا بیان

راوی:

وَعَنْ اُمَیْمَۃَ بِنْتِ رُقَیْقَۃَ قَالَتْ کَانَ لِلنَبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْحٌ مِنْ عِیْدَانِ تَحْتَ سَرِیْرَۃِ یَّبُوْلُ فِیْہٖ بِاللَّیْلِ۔ (رواہ ابوداؤد و السنن نسائی )

" اور حضرت امیمہ بنت رقیقہ ( امیمہ بنت رقیقہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہمشیرہ کی صاحبزادی ہیں ) فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی کے نیچے رکھا رہتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اس میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔" (ابوداؤد، سنن نسائی )

تشریح :
چونکہ رات میں سردی وغیرہ کی بناء پر اٹھنا تکلیف دہ اور پریشانی کا سبب ہوتا ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اس کام کے لئے مخصوص کر لیا تھا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات میں پیشاب کی حاجت ہوتی تھی تو اس پیالہ میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔ اور اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت ہی مقصد سامنے آئے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے امت کے لئے یہ آسانی پیدا کر دی ہے کہ جب رات میں پیشاب کی حاجت ہو اور سردی وغیرہ کی تکلیف کی بناء پر باہر نکلنا دشوار ہو تو کسی برتن وغیرہ میں پیشاب کر لیا جائے اور صبح اٹھ کر اسے پھینک دیا جائے تاکہ ایک طرف تو تکلیف اور پریشانی میں مبتلاء ہونے سے بچا جائے اور دوسری طرف رات میں بیت الخلاء جانے سے بچ جائیں جو شیاطین کا مسکن ہے اور شیاطین دن کے مقابلہ میں رات کو زیادہ ضرر اور تکلیف پہنچانے کا سبب ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ امت کے لئے یہ تعلیم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی جذبہ رحمت و شفقت کی مرہون منت ہے جو اعمال و افعال میں ہر مرحلہ پر آسانی و سہولت کی صورت میں نظر آتی ہے۔
منقول ہے کہ ایک صحابی نا دانستہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب اسی پیالہ میں سے پی گئے تھے جس کا اثر یہ ہوا کہ جب تک وہ زندہ رہے ان کے بدن سے خوشبو آتی رہی اور نہ صرف ان کے بدن سے بلکہ کئی نسلوں تک ان کی اولاد کے بدن میں بھی وہی خوشبو باقی رہی۔

یہ حدیث شیئر کریں