مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 339

پاخانہ کے آداب کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَتَی الْخَلاءَ اَتَیْتُہ، بِمَاءِ فِی تَوْرِ اَوْرَکْوَۃِ فَاسْتَنْجٰی ثُمَّ مَسَحَ یَدَہ، عَلَی الْاَرْضِ ثُمَّ أَتَیْنَہ، بِانَآءِ اَخَرَ فَتَوَضَّأَ۔(رواہ ابوداؤ وروی الدرامی و السنن نسائی معناہ)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ جاتے تو آپ کے لئے پیالہ یا چمڑے کی چھاگل میں پانی لاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے استنجاء کرتے پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑتے پھر اس کے بعد میں (پانی کا) دوسرا برتن لاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے۔" (دارمی ، سنن نسائی )

تشریح :
تور عرب میں پیتل یا پتھر کا ایک چھوٹا سا برتن پیالہ کی طرح ہوتا ہے، اس میں کھانا کھاتے ہیں، اور بوقت ضرورت اس میں پانی بھر کر اس سے وضو بھی کر لیتے ہیں رکوۃ چمڑے کی چھاگل کو فرماتے ہیں جو پانی رکھنے کے کام آتا ہے۔
استنجاء سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر ہاتھ رگڑ کر اس لئے دھوتے تاکہ ہاتھ سے بدبو نکل جائے اور ہاتھ خوب پاک و صاف ہو چنانچہ پاخانہ سے آکر اس طرح سے ہاتھ دھونا سنت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضو کے لئے دوسرے برتن میں پانی اس لئے نہیں لاتے تھے کہ استنجے کے بقیہ پانی یا اس برتن سے وضو درست نہیں تھا بلکہ اس برتن میں چونکہ پانی صرف استنجے کی ضرورت کی مطابق ہی رہتا ہوگا اس لئے وضو کے لئے دوسرے برتن میں پانی لانے کی ضرورت ہوتی تھی، اس حدیث میں بعض علماء کرام نے یہ اخذ کیا ہے کہ اگر استنجے اور وضو کے پانی کے لئے الگ الگ برتن ہوں تو یہ مستحب ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں