وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودِ کَانَ یَقُوْل مِنْ قُبْلَۃِ الرَّجُلِ امْرَأَتَہ، الْوُضُوْئُ۔(رواہ موطا امام مالک)
وعن انب عمر ان عمر بن الخطاب قال ان القبلۃ من المس فتوضئو منہا
" اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مرد کو اپنی عورت کا بوسہ لینے سے وضو لازم آتا ہے ۔ (مؤطا امام مالک)
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا کہ بوسہ لینا لمس میں داخل ہے (جو قرآن میں مذکور ہے) لہٰذا بوسہ لینے کے بعد وضو کیا کرو۔"
تشریح :
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔
ہمارے امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چونکہ عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لئے ان روایتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اوّل تو یہ تمام روایتیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر موقوف ہیں یعنی یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال ہیں اس لئے ان کا حکم حدیث مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد جیسا نہیں ہو سکتا دوسرے ان کے نزدیک یہ روایتیں درجہ صحت کو بھی نہیں پہنچی ہوئی ہیں۔
پھر اس سے قطع نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث موجود ہے جو پہلے ذکر کی گئی اور جس کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روایت کیا ہے کہ اس سے بصراحت یہ مفہوم ہوتا ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز اس کے علاوہ" مسندابی حنیفہ" میں ایک دوسری حدیث مذکور ہے جسے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے روایت کیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضو یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا جسے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے روایت کیا ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضو یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا " گویا اس حدیث نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی کہ عورت کو چھونے یا اس کا بوسہ لینے کو ناقض وضو کہا گیا ہے۔ و اللہ اعلم۔