وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُقَبِّلُ بَعْضَ اَزْوَاجِہٖ ثُمَّ یُسَلِّیْ وَلَا یَتَوَضَّأُ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَالنَّسَائِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ لَا یَصِحُّ عِنْدَاَصْحَابِنَا بِحَالِ إِسْنَادُ عُرْوَۃَ عَنْ عَآئِشَۃَ وِاِیْضًا اِسْنَادُ اِبْرَاھِیْمَ التَّیْمِیِّ عَنْھَا وَقَالَ اَبُوْدَاؤدَ ہٰذَا مُرْسَلٌ وَاِبْرَاھِیْمُ التَّیْمِیُّ لَمْ یَسْمَع عَنْ عَآئِشَۃَ۔
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیتے تھے اور بغیر وضو کے (پہلے ہی وضو سے) نماز پڑھ لیتے تھے (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ابن ماجہ) جامع ترمذی نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کے نزدیک کسی حال میں عروہ کی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نیز ابراہیم تیمی کی بھی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحیح نہیں ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے اس لئے کہ ابراہیم تیمی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نہیں سنا ہے۔"
تشریح :
اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام مسند احمد بن حنبل کے نزدیک غیر محرم عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹا جاتا ہے، حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ غیر محرم عورت کو اگر شہوت کے ساتھ چھوئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں ٹوٹے گا ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل یہی حدیث ہے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک دوسری حدیث بھی جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں مذکور ہے حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد پڑھنے کے لئے بیدار ہوتے تو میں سوتی رہتی اور میرے دونوں پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کی جگہ پڑھے رہتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کے وقت میرے پیروں میں ٹھونکا دیتے تھے تو میں اپنے پیر سمیٹ لیتی تھی " لہٰذا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، امام جامع ترمذی کا یہ کہنا عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سماعت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت نہیں ہے" بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ صحیحین میں (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) میں اکثر احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سماع ثابت ہے معلوم ہوتا ہے کہ جامع ترمذی کے اس قول کو نقل کرنے میں مصنف مشکوٰۃ سے کچھ چوک ہوگئی ہے کیونکہ جامع ترمذی کے اس قول کا یہ مطلب نہیں لیا جاتا جو مصنف مشکوٰۃ نے اخذکیا ہے۔
ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ کہنا کہ " یہ حدیث یعنی مرسل کی ایک قسم منقطع ) ہے" درا اصل حنفیہ کی اس دلیل کو کمزور کرتی ہے کہ جب یہ حدیث مرسل ہے تو حنفیہ کا اس کو اپنی دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک حدیث مرسل بھی حجت ہوتی ہے اور نہ صرف ہمارے نزدیک بلکہ جمہور علماء بھی مرسل حدیث کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں، لہٰذا اس حدیث کو مرسل کہہ کر اسے ناقابل استدلال قرار نہیں دیا جا سکتا۔