وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ بُسْرَۃَ بِنْتِ صَفْوَانَ بْنِ نَوْفَلِ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِذَا مَسَّ اَحَدُکُمْ ذَکَرَہ، فَلْیَتَوَضَّأْ۔ (رواہ موطا امام مالک و مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد و الجامع ترمذی و السنن نسائی و ابن ماجہ و الدارمی)
حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " تم میں سے جو آدمی اپنے ذکر (عضو خاص) کو ہاتھ لگائے تو اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے" ۔" (مالک، ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، دارمی)
تشریح :
پیشاب گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جانے میں اختلاف ہے، بلکہ اس مسئلہ میں خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف تھا چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے ذکر کو ننگی ہتھیلی سے چھو دیا تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا، ان کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ذکر کو چھو دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل ما بعد کی حدیث ہے جو قیس بن علی کی روایت کے ساتھ جسے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے، مسند ابی حنیفہ میں مذکور ہے اس کے علاوہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کی دلیل میں اور بہت سی حدیثیں وارد ہیں اس سلسلہ میں مزید تشفی کے لئے شرح ملا علی قاری اور مشکوٰۃ کا ترجمہ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
حضرت ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں حدیثیں یعنی بسرہ کی یہ حدیث جو شوافع کی دلیل ہے اور طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جو آگے آرہی ہے اور حنیفہ کی دلیل ہے، درجہ حسن سے باہر نہیں ہیں لیکن حضرت طلق ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کو حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث پر ترجیح ہوگی اس لئے کہ حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عورت اور حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد ہیں اور ظاہر ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کی حدیث قوی ہوتی ہے کیونکہ وہ عوت کی نسبت علم اور حدیث کو خوب اچھی طرح یاد رکھتے ہیں اور ان کی قوت حافظہ عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے۔